Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تَتَّقُوا : تم ڈروگے اللّٰهَ : اللہ يَجْعَلْ : وہ بنادے گا لَّكُمْ : تمہارے لیے فُرْقَانًا : فرقان وَّيُكَفِّرْ : اور دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخشدے گا تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا
اے ایمان لانے والو، اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہارے لیے فرقان نمایاں کردے گا اور تم سے تمہارے گناہ جھاڑ دے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے
آیات 29 تا 40 کا مضمون : آگے پہلے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ اگر تم اللہ کے عہد و پیمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر تم نے کمزوری نہ دکھائی تو جلد وہ وقت آجائے گا کہ وہ تمہارے لیے فرقان نمایاں کرے گا اور وہ سارے حجابات چاک ہوجائیں گے جو آج حق کے پوری طرح نمایاں ہونے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد اپنی اس بہترین تدبیر کی طرف اشارہ فرمایا جو اس نے اپنے رسول کو کفار کی متفقہ سازش سے بچانے اور اس کے لیے ہجرت کی راہ کھولنے کے لیے اختیار فرمائی۔ یہ ہجرت غلبہ اسلام کا دیباچہ اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کی تمہید ہوئی۔ اب تک کفار قرآن کے انذار کا مذاق اڑا رہے تھے، وہ کہتے تھے اگر یہ دعوت حق ہے تو اللہ ہم پر کوئی عذاب کیوں نہیں بھیج دیتا ؟ لیکن اللہ نے ان پر عذاب نہیں بھیجا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم پر فیصلہ کن عذاب نہیں بھیجتا جب تک پیغمبر ان کے اندر موجود رہتا ہے لیکن اب جب کہ پیغمبر اور مومنین ہجرت کرچکے ہیں عذاب کے آنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ہے۔ پھر کفار کے مستحق عذاب ہونے کے وجوہ بیان ہوئے ہیں۔ بیت اللہ کی تولیت اور دینداری کے بعض رسوم کے غرّے میں وہ جو یہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ وہ خدا کے دین کو تھامے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ ان کا یہ غرّہ اب ختم ہوجانے کا وقت آگیا ہے۔ اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین سے روکنے اور اس دین کو شکست دینے کے لیے وہ جو زر پاشیاں کر رہے ہیں یہ ان کے لیے عنقریب سرمایہ حسرت بنیں گی وہ دنیا میں شکست کھائیں گے اور آخرت میں اللہ ان سب کو اکٹھا کر کے جہنم میں جھونک دے گا۔ آخر میں قریش کو دھمکی ہے کہ بہتر ہے کہ وہ اپنی روش بدلیں اور اس دعوت کو قبول کرلیں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ ان کے سامنے بھی وہی انجام آنے والا ہے جو رسولوں کی تکذیب کرنے والی پچھلی قوموں کے سامنے آچکا ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ ہدایت ہے کہ ان سے جنگ جاری رکھو تاآنکہ فتنہ کا قلع قمع ہوجائے اور اس سرزمین پر اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین باقی نہ رہے۔ اللہ تمہارا یاور و ناصر ہے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۔ فرقان کا مفہوم : فرقان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو حق و باطل کے درمیان امتیاز کردے۔ یہ امتیاز پیدا کرنے والی شے داخلی بھی ہوسکتی ہے، خارجی بھی، علمی اور عقلی بھی ہوسکتی ہے، عملی اور واقعاتی بھی۔ قرآن نے دلائل وبراہین کو فرقان کہا ہے جیسا کہ بقرہ آیت 185 میں ہے، اس لیے کہ ان سے حق و باطل میں امتیاز ہوتا ہے۔ خود قرآن نبل کہ اصل تورات کے لیے بھی ایک سے زیادہ مقامات میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس لیے کہ اللہ نے یہ کتابیں حق و باطل کے درمیان امتیاز کے لیے اتاریں۔ اسی طرح اس سورة کی آیت 410 میں غزوہ بدر کو فرقان سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لیے کہ اس جنگ نے واقعات کی دنیا میں یہ دکھا دیا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔ مسلمانوں سے غلبہ کا وعدہ : اس آیت میں مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ اگر تم تقوی پر مضبوطی سے جمے رہے، یعنی اللہ و رسول کے ساتھ بدعہدی و بےوفائی کے مرتکب نہ ہوئے تو اللہ جلد وہ وقت لائے گا کہ مطلع پر جو غبار نظر آ رہا ہے یہ سب چھٹ جائے گا اور حق اس طرح غالب ہو کر چمکے گا کہ دشمنوں کی نگاہیں خیر ہو کر رہ جائیں گی۔ قرینہ بتا رہا ہے کہ یہاں یہ لفظ اسلام اور مسلمانوں کے کامل غلبہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اگرچہ ایک فرقان کا ظہور معرکہ بدر میں بھی ہوچکا تھا جس کو مسلمان دیکھ چکے تھے تاہم ابھی باطل دہنے بائیں ہر طرف سے مسلمانوں کو گھیرے ہوئے تھا اس وجہ سے ایک گروہ تذبذب کی حالت میں مبتلا تھا اور یہی تذبذب اس کو ان کمزوریوں میں مبتلا کردیتا تھا جو اوپر زیر بحث آئی ہیں۔ اس طرح کے مذبذب لوگوں کو حق پر جمانے کے لیے فرمایا کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب باطل کی یہ ساری گھٹائیں چھٹ جائیں گی اور آفتاب حق اپنی پوری تابانی سے تمہارے سامنے آجائے گا۔ بس یہ شرط ہے کہ تم اللہ و رسول کی اطاعت اور تقوی پر جمے رہو۔ وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ۔ یہاں سیات سے مراد وہ چھوٹی موٹی غلطیاں اور کو تاہیاں ہیں جو بشر کی بشریت کا لازمہ ہیں۔ فرمایا کہ اگر بڑے جرموں سے تم بچتے رہے تو اللہ تعالیٰ فروگزاشتوں اور کوتاہیوں پر تمہیں نہیں پکڑے گا، وہ بڑے فضل والا ہے۔ کبائر سے بچنے والوں کے صغائر معاف ہوجاتے ہیں۔
Top