Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ان لوگوں کی مانند نہ بننا جو اپنے گھروں سے اکڑتے اور لوگوں کے آگے اپنی نمائش کرتے نکلے اور جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، حالانکہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ۔ بطر کا مفہوم : بطر کے معنی حق سے اکڑنے اور اس سے متکبرانہ منہ موڑنے کے ہیں۔ قرآن نے اس سے اس بدمستی اور سرکشی کو تعبیر فرمایا ہے جو الہ کی نعمتیں پا کر کسی شخص یا گروہ پر طاری ہوجاتی ہے اور ہو شکر اور تواضع کے بجائے غرور اور طغیان میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ سورة قصص میں ہے و کم اھلکنا من قریۃ بطرت معیشتہا : اور کتنی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا جو اپنے وسائل معیشت کی فراوانی پر اکڑنے لگی تھیں۔ یہ قرآن نے اس روش کے منافی روش سے سلمانوں کو روکا ہے جس کی تعلیم اوپر والی آیت میں ‘ واذکروا اللہ کثیرا ’ کے الفظ سے دی ہے۔ کالذین سے اشارہ قریش کی طرف ہے جو جنگ بدر کے لیے، جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں، اپنی کثرت تعداد اور اسباب و وسائل کی بہتات کے گھمنڈ میں بڑے طنطنہ اور بڑے طمطراق سے نکلے تھے۔ فرمایا کہ کسی مرحلے میں بھی ان لوگوں کی روش تم نہ اختیار کرنا۔ تم خدا کی بندگی و اطاعت کی رسم دنیا میں قائم کرنے اٹھے ہو تو بندگی کی تواضع اور عبیت کی فروتنی ہر جگہ تم پر نمایاں رہے۔ خواہ بزم میں ہو یا رزم میں۔ اگرچہ مقصود یہاں مسلمانوں کو یہ بتانا ہے کہ تمہاری جنگ جنگ نہیں بلکہ خدا کی عبادت ہے، اس کی شان عبادت ہر جگہ قائم رہے لیکن اس سے یہ بات بھی سامنے آگئی کہ آئندہ مسلمانوں کے سامنے ایسے حالات آنے والے ہیں کہ اگر وہ چوکنے نہ رہے تو وہ بھی اس قسم کے فتنوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ گویا یہ ایک بشارت بھی ہے اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کہ ہمیشہ خدا ہی سے وابستہ رہنا، تعداد اور سامان کی فراوانی جب حاصل ہوجائے تو اس کے غرّے میں اترانے نہ لگنا۔ اصل چیز سروسامان نہیں بلکہ خدا کی کارسازی اور اس کی معیت ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس طرح ولا تنازعوا، کی ہدایت کی ایک گروہ نے خلاف ورزی کر کے جیسا کہ ہم نے اوپر اشقارہ کیا، جنگ احد میں پوری جماعت کے لیے ایک سخت آزمائش پیدا کردی۔ اسی طرح جنگ حنین کے موقع پر کثرت تعداد کے اعتماد نے مسلمانوں کو ایک سخت آزمائش سے دوچار کردیا جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ فرمایا ہے۔ ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین۔ اور حنین کے دن جب کہ تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کیا تو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ پیچھے بھاگے۔ رئاء الناس سے قریش کے اس جذبہ نمائش کی طرف اشارہ ہے جس سے ایک ایک سردار بدر کے موقع پر سرشار تھا۔ اس کا ضد اللہ کے لیے اخلاص ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم جو کچھ کرنا ہمیشہ اللہ کے لیے کرنا اس لیے کہ تمہیں اپنے کسی عمل کی دد دنیا سے نہیں لینی ہے بلکہ آخرت میں اپنے رب سے لینی ہے۔ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۔ یعنی ان کا یہ سارا طمطراق اور سارا جوش و خروش اس لیے تھا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ سے روکیں۔ ان نادانوں کو پتہ نہیں کہ انسان خواہ کتنی وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ اپنے جال پھیلائے اور اپنی ترکتازیوں کے کتنے ہی مظاہرے دکھائے، اس کی ہر چیز ہر وقت خدا کی مٹھی میں ہے۔ اس کی ساری جولانیوں کے ارد گرد خدا نے باڑ لگا رکھی ہے۔
Top