Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 4
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَمَغْفِرَةٌ : اور بخشش وَّرِزْقٌ : اور رزق كَرِيْمٌ : عزت والا
یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجے اور مغفرت اور باعزت روزی ہے
اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۔ یعنی جن کے اندر یہ اوصاف ہیں سچے مومن وہی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اہل ایمان کی صفوں میں آ تو گھسے ہیں لیکن ان اوصاف سے عاری ہیں، وہ محض مدعی ایمان ہیں، سچے مومن نہیں ہیں۔ گویا اوپر ان کنتم مومنین کے الفاظ میں جو بات اشارۃ فرمائی گئی تھی اب وہ پوری طرح واضح ہو کر سامنے آگئی۔ rnۭلَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۔ مطلب یہ ہے کہ خدا ہاں جو درجے اور مرتبے ہیں وہ مدعی ایمان کے لیے نہیں ہیں بلکہ انہی لوگوں کے لیے ہیں جو اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سیاق میں مغفرۃ کا لفظ بڑا بلیغ اور بشارت انگیز ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہرچند مطلوب و مطبوع تو یہی اوصاف ہیں اور مراتب انہی کے اعتبار سے قائم ہوں گے لیکن اللہ رحیم و کریم ہے، وہ اپنے بندوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اس وجہ سے ان غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے اس کی مغفرت کا دامن بھی ہے جو انسان کی بشریت کے لوازم میں سے ہیں۔ رزق کا لفظ جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں ایک جامع لفظ ہے اور کریم کی صفت اس کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اگرچہ بندوں کو سارا رزق و فضل رب کی عنایت ہی سے ملے گا لیکن اس کے ساتھ بندوں کے لیے عزت کی یہ سرفرازی بھی ہوگی کہ یہ سب کچھ ان کے حق کی حیثیت سے ان کو عطا ہوگا۔ ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے کی نوعیت : اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ایمان کوئی ٹھونٹھ درخت نہیں ہے بلکہ یہ جڑ بھی رکھتا ہے اور شاخیں اور برگ و بار بھی۔ قرآن میں اس کی تمثیل یوں بیان ہوئی ہے کہ اصلھا ثابت و فرعہا فی السماء، اس کی مثال ایک ایسے درخت کی ہے جس کی جڑیں پاتال میں اتری ہوئی ہوں اور جس کی شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہوں۔ یہ جس طرح عقائد پر مبنی ہے اسی طرح احکام و شرائع پر بھی مشتمل ہے اور جس طرح ایک شاداب درخت اپنی جڑوں سے بھی غذا حاصل کرتا ہے اور اپنی شاخوں اور پتوں سے بھی، اسی طرح یہ عقائد کی معرفت اور اعمال کی بجا آوری دونوں سے غذا اور قوت حاصل کرتا ہے۔ اگر عقائد میں کھوکھلا پن پیدا ہوجائے جب بھی یہ سوکھ جاتا ہے اور اگر اس کی شاخوں کو کوئی روگ لگ جائے جب بھی یہ مضمحل ہوجاتا ہے۔ اس کے صحیح نشو و نما کے لیے ضروری ہے کہ اس کی جڑ اور اس کی شاخوں دونوں کی دیکھ بھال ہوتی رہے۔ اس دیکھ بھال سے یہ بڑھتا، پھیلتا اور پھلتا پھولتا ہے اور اس کے مفقود ہوجانے سے وہ گھٹتا، سکڑتا اور مردہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن و حدیث دونوں سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ ہمارے فقہاء اور متکلمین میں سے جن لوگوں نے ایمان کے گھٹنے بڑھنے سے انکار کیا ہے ان کی بات کا کوئی صحیح محمل اگر ہوسکتا ہے تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کو قانونی ایمان سے متعلق مانا جائے۔ قانون چونکہ صرف ظاہری حالات سے تعلق رکھتا ہے، باطن اس کی دسترس سے باہر ہے اس وجہ سے اس کی نظر میں ایک مخلص اور ایک منافق کے ایمان میں کوئی فرق نہیں ہوتا لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقت کی نگاہ میں بھی دونوں کا ایما یکساں ہے۔ یہاں اس اجمالی اشارے پر قناعت کیجیے۔ اس پر تفصیلی بحث اپنے محل میں آئے گی۔
Top