Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بیشک بدترین جانور اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور وہ ایمان نہیں لاتے ،
اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۔ یہود کی وعدہ خلافیاں۔ اب یہ یہود اور ان قبائل کے باب میں ہدایت دی جا رہی ہے جن سے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے ناطرفداری کے معاہدے کرلیے تھے مثلاً جہینہ، بنی ضمر، بنی مدلج وغیرہ، نبی ﷺ نے اپنے کیے ہوئے معاہدے کا برابر احترام باقی رکھا لیکن یہود نے ایک دن بھی اس کا احترام نہیں کیا اور یہ قبائل بھی یہود کی انگیخت یا قریش کے دباؤ سے برابر معاہدے کی خفیہ یا علانیہ خلاف ورزیاں کرتے رہے۔ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ کا مفہوم : ان شر الدواب کے اسلوب میں جو زور شدت ہے اس کی وضاحت آیت 22 کے تحت گزر چکی ہے۔ یہ اسلوب ان لوگوں کے وجود اور بقا کے جواز کی نفی کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے کسی گروہ کی قدر و قیمت اسی وقت تک ہے جب تک ان میں کوئی رمق سوچنے سمجھنے کی باقی ہے۔ جن کے اندر یہ رمق ختم ہوگئی، نہ وہ پہلے ایمان لائے، نہ آیندہ ایمان لانے والے ہیں، اب وہ صرف گندگی کے ایک ڈھیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب خدا کی زمین پر ان کے باقی رہنے میں کوئی خیر و برکت نہیں ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ رسول اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہوتا ہے۔ جن کی آنکھوں کے پردے رسول کے بعد بھی نہیں اٹھتے ان کا اندھا پن لا علاج ہوتا ہے اور زمین پر ان کا باقی رہنا بالکل بےمقصد ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو جینے کی جو مہلت دیتا ہے صرف جینے کے لیے نہیں دیتا بلکہ سوچنے سمجھنے اور زندگی سنوارنے سدھارنے کے لیے دیتا ہے۔
Top