Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 60
وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ١ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ١ۚ اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ
وَاَعِدُّوْا : اور تیار رکھو لَهُمْ : ان کے لیے مَّا : جو اسْتَطَعْتُمْ : تم سے ہو سکے مِّنْ : سے قُوَّةٍ : قوت وَّ : اور مِنْ : سے رِّبَاطِ الْخَيْلِ : پلے ہوئے گھوڑے تُرْهِبُوْنَ : دھاک بٹھاؤ تم بِهٖ : اس سے عَدُوَّ اللّٰهِ : اللہ کے دشمن وَعَدُوَّكُمْ : اور تمہارے (اپنے) دشمن وَاٰخَرِيْنَ : اور دوسرے مِنْ : سے دُوْنِهِمْ : ان کے سوا لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ : تم انہیں نہیں جانتے اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُهُمْ : جانتا ہے انہیں وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : کچھ فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ يُوَفَّ : پورا پورا دیا جائے گا اِلَيْكُمْ : تمہیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تُظْلَمُوْنَ : تمہارا نقصان نہ کیا جائے گا
اور ان کے لیے جس حد تک کرسکو فوج اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جس سے اللہ کے اور تمہارے ان دشمنوں پر تمہاری ہیبت رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنہیں تم نہیں جانتے ہو، اللہ انہیں جانتا ہے اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے وہ تمہیں پورا کردیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جائے گی
وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ۔ لفظ قوۃ قرآن میں جیسا کہ 69: توبہ، ہود :65۔ کہف :15، فصلت اور اور دوسری آیات سے واضح ہے، عددی قوت اور Man Power کے لیے بھی آتا ہے۔ رباط الخیل سے مراد وہ گھوڑے ہیں جو خاص جنگ کے لیے تربیت دیے جائیں اور اسی غرض کے لیے محفوظ اور تیار رکھے جائیں۔ جنگ میں ہر قسم کے گھوڑے کام نہیں آتے۔ اس زمانے کی جنگ میں گھوڑوں ہی کی اصل اہمیت بھی تھی اور عرب کی مخصوص آب و ہوا کے لحاظ سے ان کے ہاں گھوڑوں کی تربیت کا خاص اہتمام بھی تھا۔ اسی چیز کی ہدایت یہاں مسلمانوں کو کی گئی ہے کہ جہاد کے لیے قابل جہاد لوگوں کو بھی منظم کرو اور تربیت دیے ہوئے گھوڑے بھی تیار رکھو۔ اب تک تو جب کسی جنگ مہم کی صورت پیش آتی عرب کے عام دستور کے مطابق یہ ہوتا کہ ہر سپاہی، جو سامان اس کو میسر ہوتا اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا لیکن اس آیت میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ اپنی فوجی قوت نفری کے اعتبار سے بھی اور اسلحہ و اسباب جنگ کے اعتبار سے بھی زیادہ سے زیادہ بڑھائیں۔ اس زمانے کی جنگ میں گھوڑوں کو وہی اہمیت حاصل تھی جو اس زمانے میں ٹینک اور ہوائی جہاد کو حاصل ہے جنگ بدر میں مسلمانوں کے ساتھ گھوڑ بہت کم تھے۔ آگے کے مراحل کے لیے ان کی تعداد زیادہ کرنے کی تاکید ہوئی۔ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ۔ یہ اس تیار کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ کے اور تمہارے دشمنوں پر تمہاری دھاک اور ہیبت قائم رہے کہ تمہیں نرم چارہ سمجھ کر وہ تم پر حملہ کرنے کی جرات نہ کریں۔ یہاں مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اللہ کا دشمن ٹھہرایا ہے اس لیے کہ مسلمانوں کی جنگ جس سے بھی تھی، اللہ کے دین کے لیے تھی، اس میں کسی اور چیز کا کوئی دخل نہیں تھا۔ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ۔ اللہ اور مسلمانوں کے یہ دشمن دو قسم کے تھے۔ ایک تو وہ جو سامنے آ چکے تھے۔ مثلاً قریش جو روز اول سے دشمن تھے۔ دوسرے وہ جو ابھی پردے میں تھے۔ مثلاً یہود، جن کی خفیہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ نیز وہ قبائل جن سے آنحضرت ﷺ کا معاہدہ غیر جانبداری تھا لیکن، یہود اور قریش کی تحریک سے وہ بھی پر تولنے لگ گئے تھے۔ علاوہ ازیں وہ منافقین جو منافقت میں بڑے مشاق تھے اور برابر دشمنوں کی مقصد برآری کے لیے مصرو سازش رہتے تھے۔ قرآن نے سورة توبہ میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ : اور تمہارے ارد گرد جو اعراب ہیں ان میں بہتیرے منافق ہیں اور اہل مدینہ میں بھی منافق ہیں۔ یہ اپنے نفاق میں بڑے مشاق ہیں۔ تم ان کو نہیں جانتے۔ ہم ان کو جانتے ہیں۔ ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر یہ ایک عظیم عذاب کی طرف دھکیلے جائیں گے (توبہ : 101) علاوہ ازیں بیرونی طاقتیں مثلاً رومی، غسانی، ایرانی وغیرہ بھی تھیں جو بعد میں اس وقت سامنے آئیں جب اسلام نے پورے عرب کو زیر نگیں کرلیا۔ قرآن نے یہاں مسلمانوں کو حاضر سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے ان دشمنوں کی طرف بھی ایک اشارہ کردیا جو مستقبل قریب یا مستقبل بعید کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں تاکہ مسلمان دور تک نگاہ رکھ کر منصوبہ بندی کریں۔ یہ نہ خیال کریں کہ محض ایک وقتی جھونکا تھا، جو آیا اور اب گزر گیا ہے۔ rnۭوَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔ یہ جنگی تیاریوں کے سلسلہ میں انفاق کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے کہ اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی خرچ کروگے تمہارا کوئی دھیلا پیسہ بھی ضائع جانے والا نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں تمہارا پائی پائی کا حساب موجود رہے گا اور وہ سب تمہیں پورا کردیا جائے گا، اس میں ذرا کمی نہیں ہوگی۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ ‘ یہ پورا کیا جانا ’ اسی اصول کے مطابق ہوگا جو نیکیوں کے اجر کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور جو قرآن میں دوسرے مقام میں مذکور ہے۔
Top