Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر وہ مصالحت کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کے لیے جھک جائیو اور اللہ پر بھروسہ رکھیو، بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۔ سلم یسلم صلح اور مصالحت کے معنی میں آت ہے اور یہ مؤنث بھی استعمال ہوتا ہے۔ اجتماعی اصول عدل کا احترام : اوپر جنگ کا جو حکم دیا ہے وہ حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ کی تصریح کے ساتھ ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ قریش کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک ختم ہونے والی نہیں ہے جب تک فتنہ کا اور سرزمین حرم سے ہر شائبہ شرک و کفر کا استیصال نہ ہوجائے۔ یہاں یہ واضح فرمایا کہ یہ حکم اس بات کے منافی نہیں ہے کہ کسی مرحلے میں قریش اگر صلح کے خواہاں ہوں تو ان سے صلح کرلی جائے۔ ان کی صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کی آنحضرت ﷺ کو اجازت دے دی گئی۔ اس وقت تک قریش کے لیڈروں نے جس عناد کا اظہار کیا تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ کوئی مصالحت نیک نیتی سے کریں گے بلکہ اندیشہ تھا کہ شرارت کرنے اور دھوکہ دینے ہی کے لیے کریں گے اس وجہ سے ان پر اعتماد کرنے کا مسئلہ بڑا مشکل تھا۔ تاہم چونکہ اجتماعی اصول عدل اسی بات کا مقتضی تھا کہ حریف کی صلح کی پیشکش ٹھکرائی نہ جائے اس وجہ سے آنحضرت ﷺ کو ہدایت ہوئی کہ اس اندیشے کے باوجود مصالحت قبول کرلینا اور اللہ پر بھروسا رکھنا۔ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اگر اس کے اعتماد پر تم ایک مقصد خیر کی خاطر خطرہ مول لو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور حریف اس سے کوئی غلط فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہ ہوگا۔
Top