Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaashiya : 19
وَ اِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْٙ
وَاِلَى الْجِبَالِ : اور پہاڑ کی طرف كَيْفَ : کیسے نُصِبَتْ : کھڑے کئے گئے
اور پہاڑوں پر نظر نہیں ڈالتے، کس طرح کھڑے کیے گئے
زمین کے عجائبات کی طرف اشارہ: ’وَإِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ‘۔ آسمان اور اس کے عجائبات کی سیر کرانے کے بعد نگاہ کو پھر زمین کی طرف توجہ دلائی اور اس کی اس نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جو زمین و آسمان کے مابین خالق کائنات کی قدرت و حکمت کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ فرمایا کہ پہاڑوں کو دیکھو کہ وہ کس طرح نصب کیے گئے ہیں۔ وہ زمین کے توازن کو قائم رکھے ہوئے ہیں کہ مبادا وہ سب کے سمیت کسی سمت کو لڑھک جائے۔ وہ ہواؤں اور بادلوں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں تاکہ بارش کی تقسیم قدرت کی حکمت اور اس کے منشا کے مطابق ہو۔ ہیں تو یہ پتھر کے لیکن قدرت نے ان کے اندر سے خلق کی سیرابی کے لیے شیریں پانی کے سوتے جاری کر رکھے ہیں۔ وہ قدرت کے بے شمار قیمتی خزانوں کے امین ہیں جن کو انسان برابر دریافت کرنے اور ان کو اپنے تمدن کی تعمیر و ترقی میں صرف کرنے میں رات دن سرگرم ہے۔ ان میں ایسے پہاڑ بھی ہیں جو ناقابل عبور ہیں لیکن قدرت نے ان کے اندر درے اور راستے نکال دیے ہیں تاکہ وہ قوموں اور قوموں کے درمیان حجاب بن کے نہ رہ جائیں۔ انسان غور کرے کہ کیا یہ خالق کی عظیم قدرت، عظیم حکمت، اور اس کی عالم گیر ربوبیت پر شاہد نہیں ہیں! اور پھر غور کرے کہ کیا جو خالق ان صفات سے متصف ہے وہ انسان کو اس دنیا میں شتر بے مہار بنا کے چھوڑے رکھے گا، کوئی ایسا دن نہیں لائے گا جس میں وہ سب کا حساب کرے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دے؟ کیا یہ اس کی ربوبیت اور اس کی حکمت کا بدیہی تقاضا نہیں ہے؟ کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ اس کی قدرت کے دائرہ سے خارج اور بعید از امکان ہے!!
Top