Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaashiya : 2
وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌۙ
وُجُوْهٌ : کتنے منہ يَّوْمَئِذٍ : اس دن خَاشِعَةٌ : ذلیل و عاجز
اس دن کتنے چہرے اترے
ان لوگوں کا حال جو قیامت سے نچنت رہے: اوپر کا سوال، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، طلب جواب کے لیے نہیں بلکہ صرف تنبیہ کے لیے تھا کہ سننے والے اس کو اچھی طرح سن لیں۔ اس کے بعد قرآن نے خود ہی اس کا جواب دیا کہ اس دن کتنے چہرے بالکل اترے اور تھکے ہارے ہوں گے۔ ’خَاشِعَۃٌ‘ کے معنی جھکے ہوئے، پست اور اداس کے ہیں۔ ’عَامِلَۃٌ‘ کے معنی محنت سے نڈھال اور ’نَاصِبَۃٌ‘ کے معنی تھکے ہارے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دن جب ان کی توقع کے برعکس یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان کو اپنے اعمال کی پاداش میں جہنم میں پڑنا ہے تو ان کے چہرے فق ہو جائیں گے، ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔ ’وُجُوْہٌ‘ سے مراد اگرچہ اشخاص ہیں لیکن ان کو تعبیر ’وُجُوْہٌ‘ سے اس لیے کیا ہے کہ مقصود ان کی اندرونی کیفیات کو ظاہر کرنا ہے اور کیفیات کا اظہار سب سے زیادہ نمایاں طریقہ پر چہروں ہی سے ہوتا ہے۔
Top