Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
نبی اور مومنین کے لیے روا نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت مانگیں اگرچہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ یہ ظاہر ہوچکا کہ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں
آیات 113 تا 129 کا مضمون : خاتمہ سورة : آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں۔ خطاب براہ راست مسلمانوں سے ہے۔ تمام عناصر فاسدہ سے ان کو پاک کردینے کے بعد آخر میں یہ بعض ہدایات اور بشارتیں دی جا رہی ہیں۔ پہلی یہ ہدایت فرمائی کہ پیغمبر یا اہل ایمان کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے خدا سے استغفار کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی سلسلہ میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو استغفار کیا، اس کا صحیح پہلو واضح فرما دیا تاکہ یہ واقعہ کسی کے لیے غلط فہمی کا سبب نہ بنے۔ اس ہدایت سے مقصود مسلمانوں کو باطل کے ہر لوث اور ہر شائبہ سے بالکل پاک کر کے صرف حق کے لیے جینے اور مرنے کے نصب العین پر قائم کرنا ہے۔ اگر حق کے سوا کسی اور حمیت کا کوئی ادانی شائبہ بھی آدمی کے اندر باقی رہے تو یہیں سے نفاق اور کفر کی راہیں کھلتی ہیں اس وجہ سے پوری شدت کے ساتھ اس دروازے کو بند کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان تمام مسلمانوں کو قبولیت توبہ کی بشارت سنائی گئی ہے جو ان تنبیہات کے بعد، جو اس سورة میں وارد ہوئی ہیں، اپنی کمزوریوں کی اصلاح کے لیے بےچین و بےقرار ہوگئے تھے اور توبہ و استغفار میں سرگرم تھے۔ پھر اہل مدینہ اور اعراب کے تائبین کو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے آپ کو ہمیشہ راست بازوں اور صداقت شعاروں کے ساتھ وابستہ رکھو تاکہ ان کی صحبت و معیت تمہاری کمزوریوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے، نیز اس عظیم اجر کو یاد رکھو جو اللہ نے اپنی راہ کی ہر چھوٹی بڑی نیکی کے عوض دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں خاص طور پر اہل بادیہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ ان کی جماعتیں برابر مرکز سے وابستہ رہیں تاکہ صحبت نبوی کی برکتوں سے وہ خود بھی مستفید ہوسکیں اور اپنی قوم کو بھی مستفید کرسکیں۔ آگے مسلمانوں کو اپنے اپنے گرد و پیش کے کفار سے جنگ کرنے اور ان کے مقابل میں سخت ہونے کی تاکید فرمائی۔ اور ان تمام تنبیہات کے بعد بھی جو لوگ ابھی نفاق کی آلودگیوں میں لتھڑے ہوئے تھے ان کے انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔ آخر میں مسلمانوں کو خطاب کر کے یہ واضح فرمایا کہ کیسی عظیم نعمت و رحمت ہے جو اس پیغمبر کی صورت میں تمہیں نصیب ہوئی ہے تو صدق دل سے اس کی قدر کرو اور اعراض کرنے والوں سے، پیغمبر ﷺ کی زبان سے، کہلوایا ہے کہ مجھے کسی کی پروا نہیں ہے۔ میرے لیے اللہ کافی ہے۔ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 113۔ 114: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۔ مشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت : یہ مسلمانوں کو ایک نہایت خفی شائبہ شرک سے، جو نفاق کا ایک چور دروازہ ہے، پرہیز کرنے کی ہدایت ہے۔ وہ یہ کہ جن لوگوں پر حق پوری طرح واضح کیا جا چکا ہے اور جن سے اتمام حجت کے بعد اعلان براءت ہوچکا ہے، پھر بھی وہ ایمان نہ لائے، ان کے لیے اہل ایمان مغفرت نہ مانگیں اس لیے کہ اس قسم کے معاندین، خدا کے غضب کے مستحق ہیں۔ ان کے لیے رشتہ قرابت یا کسی اور رابطہ محبت کی بنا پر رحمت کی دعا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ حمتی قرابت، حمیت حق پر غالب ہے۔ آیت میں مشرکین کا لفظ یہاں مشرکین عرب کے لیے ہے جن سے اس سورة میں جیسا کہ آپ پیچھے تفصیل سے پڑھ آئے ہیں، نہایت آشکارا الفاظ میں اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان براءت ہوچکا ہے۔ اور منافقین کی بڑی کمزوریوں میں سے یہ کمزوری بتائی گئی ہے کہ وہ ان سے اپنی قرابت اور دوستی کے روابط کاٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کے ساتھ تمام روابط ختم کردینے کے بعد اہل ایمان کو یہ ہدایت ہوئی کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی نہ کی جائے۔ یاد ہوگا کہ اوپر یہ ممانعت نبی ﷺ کو کٹر منافقین کے باب میں بھی ہوئی ہے کہ آپ نہ ان کے لیے استغفار کریں نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔ حضرات انبیاء علیم السلام کی دعوت میں ایک مرحلہ آتا ہے جب ان کو اور اہل ایمان کو کفار کے لیے ہدایت ومغفرت کی دعا سے بھی روک دیا جاتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ وقت بھی آتا ہے جب کہ رب لاتذر علی الارض من الکفرین دیا را، کے الفاظ بھی ان کی زبان سے ان کفار کے حق میں نکلتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اہل باطل کے ساتھ کوئی تسمہ بھی اہل حق کا لگا رہنے نہیں دینا چاہتا تاکہ جو عذاب ان کے لیے مقدر ہوچکا ہے وہ اس کو بھگتنے کے لیے ہر امان سے محفوظ ہوجائیں۔ سورة انفال میں ہم یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ نبی اور اہل ایمان کی دعائیں ان کی قوم کے لیے امان کا کام دیتی ہیں۔ یہاں نبی اور اہل ایمان کو استغفار سے روک کر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو گویا آخری امان سے بھی محروم کردیا۔ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى، کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ نبی کے ساتھ بھی کسی کی رشتہ داری ایمان کے بغیر خدا کے ہاں کچھ کام آنے والی نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد دوسرے رشتوں ناتوں کی کیا اہمیت باقی رہی۔ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ کے الفاظ سے یہ بات تو واضح طور پر نکلتی ہے کہ جن کا جہنمی ہونا قطعی طور پر معلوم ہوچکا ہو ان کے لیے اہل ایمان کو استغفار کرنا جائز نہیں ہے لیکن اس سے کسی کافر کے لیے ہدایت کی دعا کرنے کی ممانعت نہیں نکلتی اس لیے کہ آیت میں جن مشرکین کا ذکر ہے ان کا جہنمی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا۔ رسول کے بعد، کسی کے باب میں قطعی طور پر اس بات کے معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت نہیں اختیار کرے گا۔ لازمی جہنمی ہی ہوگا۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کی ہدایت کی دعا کرنے میں کوئی قباحنت نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص کفر ہی پر مرا ہے تو اس کے لیے نجات کی دعا نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ اس سے ایمان کی بےوقعتی اور خدا کے قانون وعدل کی نفی ہوتی ہے جس سے احتراز اہل ایمان کے لیے لازمی ہے۔ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ: حضرت ابراہیم ؑ کے استغفار کی نوعیت : یہ ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے یعنی کوئی یہ نہ خیال کرے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے کافر باپ کے لیے مغفرت کی دعا کی تو آخر وہ اپنے کافر عزیزوں کے لیے استغفار کیوں نہیں کرسکتا ؟ فرمایا کہ ابراہیم نے جو کچھ کیا وہ محض ایک وعدے کا ایفا تھا جو وہ اپنے باپ سے کرچکے تھے۔ پھر یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب ان پر یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی کہ باپ فی الحقیقت اللہ کا دشمن ہے۔ جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی، انہوں نے اس سے اعلان براءت کردیا۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں واضح ہونے سے مراد یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو آگاہ فرما دیا کہ بس اب اس کا پیچھا چھوڑو یہ ایمان لانے والا نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم کے جس وعدے کا یہاں حوالہ ہے وہ قرآن میں کوئی جگہ مذکور ہے۔ سورة مریم میں ہے ”قال سلام علیک ساستغفرلک ربی انہ کان بی حفیا : اس نے کہا اچھا۔ السلام علیکم۔ میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت مانگوں گا۔ وہ میرے حال پر بڑا مہربان ہے“ (مریم :47)۔ اس سے وعدے کی غایت درجہ اہمیت واضح ہوتی ہے۔ آدمی اگر کسی سے وعدہ کر بیٹھے، خاص طور پر دعاء استغفار کا، تو حد جواز و امکان کے اندر اس کو ضرور پورا کرے۔ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ۔ اواہ کے معنی کثیر التادہ، یعنی درد مند، غم خوار اور رقیق القلب کے ہیں اور حلیم کے معنی بردبار کے ہیں۔ یہاں ان الفاظ سے حضرت ابراہیم کی تعریف دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی باپ کے معاملے میں دردمندی اور بربادی بہت پسند آئی۔ اوپر سورة مریم کی جس آیت کا حوالہ ہم نے دیا ہے اس کے پیش و عقب کو قرآن میں پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ آذر نے اس موقع پر حضرت ابراہیم کے ساتھ نہایت سنگدلانہ برتاؤ کیا تھا لیکن سعادت مند بیٹے نے حلم و بردباری سے نہ صرف باپ کی جھڑکی اور دھمکی کو برداشت کیا بلکہ غایت دردمندی کے ساتھ اس کے لیے دعا و استغفار کا وعدہ بھی کرلیا۔ غور کیجیے کہ ایک ایسے درد مند اور حلیم بیٹے نے جب باپ سے اعلان براءت کیا ہوگا تو جگر پر کتنا بھاری پتھر رکھ کر کیا ہوگا ؟ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ بندہ اس کی محبت میں مومن بھی بنے اور پتھر بھی اس وجہ سے حضرت ابراہیم نے اپنے دل کے یہ دونوں پہلو نمایاں کیے اور یہی صحیح نمونہ ہے دین کے خدمت گزاروں کے لیے۔ جب تک ان کے سینہ میں درد مند دل نہ ہو خلق کی ہدایت کے لیے ان کا اٹھنا بےود اور جب تک عزم میں لوہے کی صلابت اور پہاڑ کی استقامت نہ ہو دین کے لیے ان کا وجود بالکل ناکارہ۔
Top