Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
یہ تو نہ تھا کہ سب ہی مسلمان اٹھتے تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو بھی آگاہ کرتے جب کہ وہ ان کی طرف لوٹتے کہ وہ بھی احتیاط کرنے والے بنتے
نفاق کی بیماری کا علاج : وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۔ یہ بات بھی صادقین کی معیت اور رفاقت ہی کے پہلو سے ارشاد ہوئی ہے۔ اوپر آیت 97 میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ اعراب نے نبی اور صالحین کی صحبت بہت کم اٹھائی ہے۔ وہ حلال و حرام کی حدود سے بیخبر ہیں، اس وجہ سے کفر و نفاق کی بیماری کا حملہ ان پر آسانی سے ہوجاتا ہے۔ اب یہ ان کو اس کمزوری کے علاج کی طرف توجہ دلائی کہ ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پیغمبر اور صحابہ کی صحبت سے مستفید ہونے کی سبیل نکالنے کی کوشش کرنی تھی۔ اگر سب لوگ اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر مجلس نبوی میں نہیں پہنچ سکتے تھے تو ایسا کیوں نہیں کیا گیا کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت علم دین میں فہم و بصیرت حاصل کرنے کے لیے مجلس نبوی میں حاضر ہوتی تاکہ وہاں سے مستفید ہو کر اپنی قوم کو بھی اس سے مستفید کرتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اب تک اس میں کوتاہی ہوئی ہے تو اب اس کا اہتمام کیا جائے اور ہر بستی سے لوگ باری باری مدینہ آئیں، دین سیکھیں اور سمجھیں اور پھر اپنی قوم میں واپس جا کر لوگوں کو بتائیں اور سکھائیں۔ اس طرح دیہات کے لوگ اپنے گھر در اور مال مویشی کی دیکھ بھال بھی کرسکیں گے اور نبی اور صحابہ کے فیض صحبت سے بھی مستفید ہوسکیں گے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ نے مجلس نبوی میں حاضر کے لیے باریاں مقرر کر رکھی تھیں۔ اس طرح وہ اپنے باہمی تعاون سے اپنے کام کاج بھی جاری رکھتے اور مجلس نبوی کے فیوض و برکات سے بھی فائدہ اٹھاتے۔ اسلام میں تعلیم کا اصلی مقصد : آیت میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تفقہ فی الدین، کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دین میں فہم و بصیرت حاصل کرنا اور تعلیم دینے کے لیے انذار کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ڈرانے، ہوشیار کرنے اور خاص طور پر آخرت کی زندگی کی تیاریوں کے لیے بیدار کرنے کے ہیں۔ یہ دونوں لفظ اسلام میں تعلیم کو جو اصل مقصد ہے، اس کے لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں۔ اسلام میں تعلیم و تعلم کا اصل مقصد دین میں بصیرت حاصل کرنا اور آخرت کی فلاح کے لیے اپنی اور دوسروں کی تربیت کرنا ہے۔ باقی چیزیں سب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور اسی نصب العین کے تابع ہیں۔
Top