Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 23
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوْٓا : تم نہ بناؤ اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا وَاِخْوَانَكُمْ : اور اپنے بھائی اَوْلِيَآءَ : رفیق اِنِ : اگر اسْتَحَبُّوا : وہ پسند کریں الْكُفْرَ : کفر عَلَي الْاِيْمَانِ : ایمان پر (ایمان کے خلاف) وَ : اور مَنْ : جو يَّتَوَلَّهُمْ : دوستی کریگا ان سے مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ هُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے ایمان والو، تم اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو اپنا ولی نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں، اور تم میں سے جو لوگ ان کو اپنا ولی بنائیں گے تو وہی لوگ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ٹھہریں گے
تفسیر آیات 23، 24۔ آیت 23۔ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ۔ سچے اہل ایمان کی صفات : اوپر آیت 16 میں یہ مضمون گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا کہ اہل ایمان کے اندر وہ لوگ بھی رلے ملے رہیں جو ایمان کا دعوی بھی رکھتے ہیں اور کفار و مشرکین سے دوستی بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ پر سچا ایمان رکھنے والے صرف وہی لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کریں اور اللہ و رسول اور اہل ایمان کے مقابل میں کسی اور کو اپنا دوست اور معتمد نہ بنائیں۔ اب یہ اسی مضمون کو دوسرے اسلوب سے نہایت واضح اور فیصلہ کن لب و لہجہ میں، تمام مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے تاکہ ہر شخص اپنی راہ اور اپنی منزل کا انتخاب کرلے۔ فرمایا کہ تمہارے درمیان تعلق، دوستی اور اعتماد کی بنیاد نسب اور خاندان پر نہیں بلکہ ایمان پر ہے۔ اگر تم میں سے کسی کے باپ اور بھائی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو تم ان کو اپنا معتمد اور دوست نہ بناؤ۔ جو ایسا کرے گا تو یاد رکھے کہ وہ خود اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا بنے گا فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ یعنی اس کے نتیجہ میں جو وبال اس پر دنیا اور آخرت دونوں میں آئے گا اس کی ذمہ داری خود اسی پر ہوگی۔ اس میں کسی دوسرے کی کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ آیت 22۔ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۔ یہ نہایت فیصلہ کن انداز میں اس باب کی آخری تنبیہ ہے۔ انسان کی تمام محبوبات میں سے ایک ایک چیز کو گنا کر فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی چیز بھی کسی کو اللہ اور رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز و محبوب ہے تو وہ اللہ کے فیصلے کا انتظار کرے۔ اللہ و رسول کے محبوب رکھنے کا مطلب : کسی چیز کا اللہ اور رسول سے زیادہ عزیز و محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سامنے جب دو بالکل متضاد مطالبے آئیں، ایک طرف اللہ و رسول کا مطالبہ ہو، دوسری طرف مذکورہ چیزوں میں کسی چیز کی محبت کا مطالبہ اور آدمی خدا اور رسول کے مطالبے کو نظر انداز کر کے دوسری چیز کے مطالبہ کو ترجیح دے دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ اور رسول سے زیادہ اس کو وہ چیز محبوب ہے اور اگر اس کے برعکس وہ اس چیز کے مطالبہ پر اللہ و رسول کے مطالبہ کو مقدم رکھے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اللہ و رسول کی محبت کو ترجیح دی۔ اللہ و رسول سے یہ محبت ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کے بغیر کسی کا دعوائے ایمان معتبر نہیں ہے اور یہ محبت الٰہی کے جانچنے کے لیے ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے ہر شخص اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے ایمان اور اپنی محبت کو جانچ سکتا ہے۔ مرغوبات نفس اور ایمان کا تقاضا : یہاں جن محبوبات و مرغوبات کی فہرست گنائی ہے ان میں نہایت لطیف نفسیاتی ترتیب ہے جو بجائے خود واضح ہے۔ پہلے باپ، بیٹے، بھائی، بیوی اور خاندان کو لیا ہے جن کی محبت یا عصبیت آدمی کے لیے حق کی راہ میں حجاب اور آزمائش بنتی ہے پھر اموال، کاروبار اور مکانات کا ذکر کیا ہے جو اصلاً مذکورہ متعلقین ہی کے تعلق سے مطلوب و مرغوب ہوتے ہیں اور آدمی صاحب توفیق نہ ہو تو اس کے لیے یہ فتنہ بن جاتے ہیں۔ اموال کے ساتھ اقترفتوھا کی قید ہے۔ اقتراف کے معنی اکتساب کے ہیں۔ یہ قید اس مال کے محبوب ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ قاعدہ ہے کہ جس مال کو آدمی نے خود کمایا اور بڑھایا ہو وہ اس کو زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اسی طرح تجارت کے ساتھ تخشون کسادھا کی قید اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ وہ تجارت کامیاب اور چلتی ہوئی تجارت ہے اس لیے کہ کامیاب اور چلتی ہوئی تجارت ہی وہ چیز ہے جس کے متعلق تاجر کو ہر وقت یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ اس پر کساد بازاری کا جھونکا نہ آجائے اور اس خطرے سے اس کو بچائے رکھنے کے لیے وہ سارے جتن کرتا ہے یہاں تک کہ وہی اس کی معبود بن جاتی ہے۔ پھر نہ تو اسے حلال و حرام کی تمیز باقی رہ جاتی ہے اور نہ ہجرت، جہاد اور اللہ کی راہ میں قطع علائق کی آزمائشیں اسے گوارا ہوتیں، فرمایا کہ ان میں سے ہر چیز ایک بت ہے اور جب تک بندہ اللہ کی خاطر ان میں سے ہر بت کو توڑنے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ وہ ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ جھوٹے مدعیان ایمان کا انجام : فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ دھ کی ہے اور نہایت سخت دھمکی۔ اس کے ابہام کے اندر بڑی تفصیل پوشیدہ ہے۔ اوپر مکذبین رسول کا انجام بیان ہوچکا ہے۔ یہاں اسی کی طرح اشارہ فرمایا ہے کہ جو انجام مکذبین رسول کے لیے مقدر ہوچکا ہے اسی انجامِ بد سے دوچار ہونے کے لیے وہ مدعیان ایمان بھی تیار رہیں جو کفر اور ایمان دونوں کی کشتی پر بیک وقت سوار رہنا چاہتے ہیں۔ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۔ جس طرح اوپر مشرکین کی بابت فرمایا تھا کہ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظلمین۔ اللہ مشرکوں کو بامراد نہیں کرے گا اسی طرح یہاں کفر و اسلام دونوں کے درمیان ڈانواں ڈول لوگوں کی بابت ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے فاسقوں کو بامراد نہیں کرے گا۔ فسق کا لفظ خروج عن الایمان کے مفہوم میں ہے جس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو لوگ اللہ و رسول کے مقابل میں اہل کفر کو اپنا دوست اور معتمد بناتے ہیں وہ ایمان کے دعوے کے باوجود ایمان سے نکل جاتے ہیں۔
Top