Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 32
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ وہ يُّطْفِئُوْا : وہ بجھا دیں نُوْرَ اللّٰهِ : اللہ کا نور بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَيَاْبَى اللّٰهُ : اور نہ رہے گا اللہ اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يُّتِمَّ : پورا کرے نُوْرَهٗ : اپنا نور وَلَوْ : خواہ كَرِهَ : پسند نہ کریں الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ وہ کافروں کے علی الرغم اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا
تفسیر آیت 32، 33۔ آیت 32۔ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ، حق کی مخالفت من گھڑت باتوں سے : يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا۔ اوپر آیات 29۔ 30 میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ اللہ نے ان کو گمراہی سے نکالنے کے لیے اپنا دین حق بھیجا ہے لیکن یہ اس کی پیروی پر آمادہ نہیں ہیں اور ان باتوں کی آڑ لے کر اس کی مخالفت کررہے ہیں جو محض ان کے منہ کی باتیں ہیں، نہ ان کے لیے ان کے پاس خدا کی کوئی سند ہے، نہ عقل و فطرت ہی کے اندر ان کی کوئی شہادت ہے۔ اب یہ اسی حقیقت کو ایک تمثیلی رنگ میں نمایاں کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے دین حق کی اپنی منہ زبانی باتوں کی سند پر مخالفت کرنا ایسا ہی ہے کہ کوئی سورج کو مٹی کا دیا سمجھ کر اس کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ تو یہ کوشش کر رہے ہیں لیکن اللہ نے یہ فیصلہ فرمالیا ہے کہ وہ اپنے نور کو کامل کر رکے رہے گا اور وہ افق سے خورشید جہاں تاب بن کر چمکے گا اور اللہ کا یہ فیصلہ ان کافروں کی تمام مخالفتوں کے علی الرغم پورا ہوگا۔ یہ آیت سورة صف میں بھی زیر بحث آئے گی وہاں ہم اس کے بعض خاص پہلو نمایاں کریں گے۔ آیت 33َ۔ هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۔ دین حق کے غلبہ کی بشارت : هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ۔ اس آیت کے مضمون کی وضاحت بقرہ آیت 192 اور انفال آیت 39 کے تحت بھی ہوچکی ہے۔ وہاں ہم نے بتایا ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ سرزمین حرم کفر و شرک کی ہر آلائش سے پاک ہوجائے اور دین حق کے سوا کوئی اور دین یہاں دین غالب کی حیثیت سے باقی نہ رہے تاکہ دعوت ابراہیمی کا یہ مرکز، دعائے ابراہیمی کے بموجب، تمام عالم کے لیے ہدایت اور روشنی کا سرچشمہ بن جاے۔ وہی بات یہاں فرمائی گئی کہ جس طرح یہ اہل کتاب اپنی پھونکوں سے خدا کے چراغ کو گل نہ کرسکیں گے اسی طرح مشرکین عرب کی کوششیں بھی اس دین کو مغلوب نہ کرسکیں گی بلکہ یہ ان کی تمام کوششوں کے علی الرغم اس سرزمین کے ہر دین پر غالب ہو کے رہے گا۔
Top