Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اللہ نے تمہیں معاف کیا، تم نے ان کو اجازت کیوں دے دی، یہاں تک کہ جو راست باز ہیں وہ بھی تم پر ظاہر ہوجاتے اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے
آیات 42 تا 60 کا مضمون : آگے کی آیات میں پہلے نبی ﷺ کو نہایت دلنواز انداز میں آپ کی اس نرمی پر ٹوکا ہے جو آپ بربنائے کریم النفسی منافقین کے تراشیدہ عذرات قبول کرلینے میں ظاہر فرماتے تھے۔ پھر آپ کے سامنے منافق اور مخلص کے درمیان امتیاز کے لیے ایک کسوٹی رکھ دی گئی ہے کہ سچے اور پکے مسلمان کبھی تمہارے سامنے جہاد سے معذرت پیش کرنے کے لیے نہیں آئیں گے۔ معذرت پیش کرنے کے لیے وہی آتے ہیں جن کے دلوں نفاق کا چور چھپا ہوا ہوتا ہے اور ان کے اس نفاق کے سبب سے اللہ نے ان کے لیے یہی چاہا ہے کہ وہ اس سعادت سے محروم ہی رہیں۔ پھر مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ اگر یہ منافقین جہاد کے لیے نہیں نکلے تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہوا اس لیے کہ اگر یہ نکلتے تو مسلمانوں کے اندر اسی طرح کی فتنہ انگیزیاں کرتے جس کے تجربے پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ یہ بظاہر ہیں تو تمہارے ساتھ لیکن یہ ایجنٹ دوسروں کے ہیں۔ اس کے بعد بعض ایسا منافقین کی طرف اشارہ فرمایا ہے جنہوں نے عذر تراشنے میں کچھ دینداری کی بھی نمائش کی تھی کہ گویا وہ اپنے دین و اخلاق کو فتنہ سے محفوظ رکھنے کے لیے اس جنگ میں نہیں جا رہے ہیں۔ ان کی اس جھوٹی دینداری پر برسر موقع گرفت فرمائی اور اچھی طرح ان کی قلعی کھول کر دکھایا ہے کہ ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا بغض بھرا ہوا ہے۔ پھر منافقین کو دھمکی دی کہ تمہارا کوئی انفاق بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں اس لیے کہ تم ایمان سے عاری ہو۔ تمہارا انفاق مجبورانہ اور تمہاری نماز ریاکارانہ ہے۔ ساتھ ہی پیغمبر ﷺ کو ہدایت فرمائی کہ ان لوگوں کو ذرا وقعت نہ دو۔ ان لوگوں کا مال دین کے کام آنے والا نہیں۔ یہ ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں موجب وبال بننے والا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر یہ تمہارے ساتھ بندھے ہوئے ہیں تو اس کا سبب یا تو ڈر ہے یا طمع چونکہ ان کے سامنے کوئی راہ فرار باقی نہیں رہی ہے اس وجہ سے یہ تمہارے اندر گھسے ہوئے ہیں۔ ان کی طمع کا حال اس سے ظاہر ہے کہ تم پر الزام لگاتے ہیں کہ تم صدقات کی مدد سے ان کو بھرپور نہیں دیتے۔ اس کے ساتھ ہی صدقات کے مصارف کی وضاحت فرما دی تاکہ کوئی شخص صدقات کی حرص میں ناخواندہ مہمان بننے کی کوشش نہ کرے۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ۔ آنحضرت کی کریم النفسی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش : چشم پوشی اور مسامحت کریم النفسی کا ایک لازمی مقتضا ہے۔ نبی ﷺ جس طرح تمام اعلی صفات انسانی کے مظہر تھے۔ اسی طرح آپ میں چشم پوشی کی صفت بھی کمال درجہ موجود تھی۔ منافقین آپ کی اس کریم النفسی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے۔ فرائض دینی بالخصوص فریضہ جہاد سے فرار کے لیے وہ مختلف قسم کے جھوٹے عذرات تراشتے اور آپ کی خدمت میں پیش کر کے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مانگتے۔ حجور ان کے ان بناوٹی عذرات سے اچھی طرح واقف ہوتے لیکن بربنائے کریم النفسی، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، درگزر فرما جاتے اور ان کو اجازت دے دیتے۔ حضور کی اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر چونکہ ان کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا ایک موقع مل جاتا جس سے ان کی فریب کاری پختہ ہوتی جا رہی تھی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو متنبہ فرمایا۔ لیکن متنبہ فرمانے کا انداز بہت دلنواز ہے۔ بات کا آغاز ہی عفو کے اعلان سے فرمایا کہ واضح ہوجائے کہ مقصود سرزنش اور عتاب نہیں بلکہ توجہ دلا دینا ہے کہ منافقین تمہاری کریم النفسی سے بہت غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تم اپنی چشم پوشی کی وجہ سے ان کے عذرات کو لاطائل سمجھنے کے باوجود ان کو اجازت دے دیتے ہو جس سے وہ دلیر ہوتے جاتے ہیں کہ ان کی مکاری کامیاب ہوگئی حالانکہ اگر تم اجازت نہ دیتے تو ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا۔ ان کے جھوٹوں اور سچوں میں امتیاز ہوجاتا۔ تمہاری اجازت کے بغری جو گھر میں بیٹھ رہتے ہر شخص پہچان جاتا کہ یہ منافق ہیں لیکن وہ تمہاری اجازت کو اپنے چہرے کی نقاب بنا لیتے ہیں۔
Top