Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 55
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
فَلَا تُعْجِبْكَ : سو تمہیں تعجب نہ ہو اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُهُمْ : ان کی اولاد اِنَّمَا : یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ عذاب دے انہیں بِهَا : اس سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : اور وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
تو تم ان کے مال و اولاد کو کچھ وقعت نہ دو۔ اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ یہ چیزیں ان کے لیے اس دنیا کی زندگی میں موجب عذاب بنیں اور ان کی جانیں حالت کفر میں نکلیں
مال و اولاد کی قدر و قیمت ایمان کے ساتھ ہے : جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ مال بھی بخشے اور اولاد سے بھی نوازے وہ ملت کے لیے بڑی دولت ہیں اگر ان کو ایمان و اخلاص بھی نصیب ہوجائے۔ ہر بہی خواہ ملت ایسے لوگوں کو قدر و وقعت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اس لیے کہ جان و مال دونوں سے اسلام کی جو خدمت ان کے امکان میں ہوتی ہے، دوسروں کے امکان میں نہیں ہوتی۔ ان منافقین میں بھی ایسے صاحب مال و اولاد موجود تھے جو اسلام کی بڑی خدمت اور آخرت میں بڑے مراتب حاصل کرسکتے تھے۔ چناچہ نبی ﷺ بھی ان کے لیے دل سے متمنی تھے کہ یہ ایمان و اخلاص سے بہرہ ور ہوں کہ اپنی ان نعمتوں کا حق ادا کر کے خدا کے ہاں مراتب عالیہ حاصل کریں لیکن سارے جتن کرنے کے بعد بھی جب یہ لوگ پھسڈی ہی ثابت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو آگاہ فرما دیا کہ، فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ، ان بدبختوں کے مال و اولاد کو تم ذرا وقعت نہ دو ، یہ ان کے لیے ترقی و عروج کی کمندیں نہیں بلکہ غلامی کے پھندے ہیں۔ یہ ان کی بدولت دنیا میں بھی اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوں گے اور ان کی موت بھی حالت کفر ہی میں ہوگی۔ مال و اولاد کا پھندا : یہاں دنیا میں ان کے لیے جس عذاب کا حوالہ ہے اس سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول اللہ ﷺ کے مکذبین کے لیے مقدر ہوچکا تھا اور جس کی تفصیلات پیچھے گزر چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ منافقین بھی وہی روش اختیار کرنے کا فیصلہ کرچکتے تھے تو ان کا انجام بھی وہی ہونا تھا جو اس روش کے اختیار کرنے والے دوسرے لوگوں کا بیان ہوا۔ تزھق انفسہم سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ دنیا کے مال و اسباب کو اپنے لیے پھندا بنا لیتے ہیں ان کی جانیں گھٹ گھٹ کر نکلتی ہیں اور یہ پھندا اس طرح ان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ اس سے چھوٹ کر ان کے لیے ایمان کی راہ پر آنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ انما یرید اللہ، میں اس سنت الٰہی کا بیان ہے جس کی وضاحت ایک سے زیادہ مقامات میں ہم کرچکے ہیں۔
Top