Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 8
كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ١ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ
كَيْفَ : کیسے وَاِنْ : اور اگر يَّظْهَرُوْا : وہ غالب آجائیں عَلَيْكُمْ : تم پر لَا يَرْقُبُوْا : نہ لحاظ کریں فِيْكُمْ : تمہاری اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد يُرْضُوْنَكُمْ : وہ تمہیں راضی کردیتے ہیں بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ (جمع) سے وَتَاْبٰي : لیکن نہیں مانتے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
کس طرح باقی رہ سکتی ہے جب کہ حال یہ ہے کہ اگر وہ کہیں تمہیں دبا پائیں تو نہ تمہارے بارے میں کسی قرابت کا پاس کریں نہ عہد کا۔ وہ تمہیں باتوں سے مطمئن کرنا چاہتے ہیں، پر ان کے دل انکار کر رہے ہیں اور ان کی اکثریت بد عہد ہے
فرمایا كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً الایہ۔ معاشرتی و سیاسی تعلقات کی بنیادیں : تعلقات کی بنیاد دو ہی چیزیں پر ہوتی ہے۔ معاشرتی تعلقات کی بنیاد رشتہ رحم و قرابت کے پاس ولحاظ پر اور سیاسی روابط کی بنیاد باہمی معاہدات کی عائد کردہ ذمہ داریوں کے احترام پر۔ پہلی کو ’ ال ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو ان حقوق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک اصلی و نسلی، ایک جوہر و معدن سے ہونے یا قرابت اور پڑوس کی بنا پر ایک دوسرے پر آپ سے آپ قائم ہوجاتے ہیں۔ دوسری کو ذمہ سے تعبیر فرایا ہے جو ان ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کسی معاہدہ میں شریک ہونے والی پارٹیوں پر ازروئے معاہدہ عائد ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ اس اعلان براءت سے تم سے تم میں سے کوئی اس تشویش میں مبتلا نہ ہو کہ اب ان لوگوں کے ساتھ تمام معاشرتی اور اجتماع تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ یہ ختم ہو رہے ہیں تو اب ان کو ختم ہی ہونا تھا۔ تعلقات کبھی بھی یک طرفہ قائم نہیں رہتے۔ تم میں سے جو لوگ ان تعلقات کو عزیز رکھتے ہیں انہیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اگر تم پر کبھی قابو پاجائیں گے تو نہ قرابت مندی کا لحاظ رکھیں گے نہ کسی معاہدے کا۔ ملاقاتوں میں یہ جو چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں وہ محض زبانی ہمدردی کی نمائش اور تمہیں بیوقوف بنانے کی ایک کوشش ہے ورنہ حقیقت میں ان کے دل ان کی زبان سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ان کے دلوں کے اندر تمہارے اور تمہارے دین کے خلاف عناد بھرا ہوا ہے۔ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ : فسق کا مفہوم : یعنی جس طرح ان کی قرابت داری محض زبانی اور نمائشی ہے اسی طرح اپنے عہد و پیمان کے معاملے میں بھی یہ بالکل جھوٹے اور غدار ہیں۔ ان کی اکثریت عہد شکن ہے۔ فسق کا لفظ یہاں غداری اور عہد شکنی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن میں اس لفظ کا استعمال اس معنی میں معروف ہے۔ جس طرح اوپر تقوی کا لفظ پاس عہد کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اسی طرح یہاں ‘ فسق ’ کا لفظ نقض عہد کے لیے استعمال ہوا ہے۔
Top