Tafheem-ul-Quran - Yunus : 39
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِمَا : وہ جو لَمْ يُحِيْطُوْا : نہیں قابو پایا بِعِلْمِهٖ : اس کے علم پر وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَاْتِهِمْ : ان کے پاس آئی تَاْوِيْلُهٗ : اس کی حقیقت كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَانْظُرْ : پس آپ دیکھیں كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اصل بات یہ ہے کہ جو چیز اِن کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا اُس کو اِنہوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پِچّو) جھُٹلا دیا۔47 اِسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھُٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو اُن ظالموں کا کیا انجام ہُوا
سورة یُوْنُس 47 تکذیب یا تو اس بنیاد پر کی جاسکتی تھی کہ ان لوگوں کو اس کتاب کا ایک جعلی کتاب ہونا تحقیقی طور پر معلوم ہوتا۔ یا پھر اس بنا پر وہ معقول ہو سکتی تھی کہ جو حقیقتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اور جو خبریں اس میں دی گئی ہیں وہ غلط ثابت ہوجاتیں۔ لیکن ان دونوں وجوہ تکذیب میں سے کوئی وجہ بھی یہاں موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کہ وہ از روئے علم جانتا ہے کہ یہ کتاب گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ نہ کسی نے پردہ غیب کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھ لیا ہے کہ واقعی بہت سے خدا موجود ہیں اور یہ کتاب خواہ مخواہ ایک خدا کی خبر سنا رہی ہے، یا فی الواقع خدا اور فرشتوں اور وحی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کتاب میں خواہ مخواہ یہ افسانہ بنا لیا گیا ہے۔ نہ کسی نے مر کر یہ دیکھ لیا ہے کہ دوسری زندگی اور اس کے حساب کتاب اور جزا و سزا کی ساری خبریں جو اس کتاب میں دی گئی ہیں غلط ہیں۔ لیکن اس کے با وجود نرے شک اور گمان کی بنیاد پر اس شان سے اس کی تکذیب کی جا رہی ہے کہ گویا علمی طور پر اس کے جعلی اور غلط ہونے کی تحقیق کرلی گئی ہے۔
Top