Tafheem-ul-Quran - Yunus : 47
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلِكُلِّ : اور ہر ایک کے لیے اُمَّةٍ : امت رَّسُوْلٌ : رسول فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آگیا رَسُوْلُھُمْ : ان کا رسول قُضِيَ : فیصلہ کردیا گیا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہیں کیے جاتے
ہر اُمّت کے لیے ایک رسُول ہے55، پھر جب کسی اُمّت کے پاس اُس کا رسُول آجاتا ہے تو اس کا فیصلہ پُورے انصاف کے ساتھ چُکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔56
سورة یُوْنُس 55 ”امت“ کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ ایک رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی امت ہیں۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رسول ان کے درمیان زندہ موجود ہو، بلکہ رسول کے بعد بھی جب تک اس کی تعلیم موجود رہے اور ہر شخص کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہو کہ وہ درحقیقت کس چیز کی تعلیم دیتا تھا، اس وقت تک دنیا کے سب لوگ اس کی امت ہی قرار پائیں گے اور ان پر وہ حکم ثابت ہوگا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے محمد ﷺ کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی امت ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قرآن اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا۔ اسی وجہ سے آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ”ہر قوم میں ایک رسول ہے ”بلکہ ارشاد ہوا کہ ”ہر امت کے لیے ایک رسول ہے“۔ سورة یُوْنُس 56 اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ خدا۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحاق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکین عرب کی طرف بھی کلام کا رخ پھر گیا مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہ انسانی تک پہنچنا گویا اس گروہ پر اللہ کی حجت کا پورا ہوجانا ہے۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے، کسی مزید اتمام حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ رسول کی بات مان لیں اور اپنا رویہ درست کرلیں وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اور جو اس کی بات نہ مانیں وہ عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں، خواہ وہ عذاب دنیا اور آخرت دونوں میں دیا جائے یا صرف آخرت میں۔
Top