Tafheem-ul-Quran - Yunus : 77
قَالَ مُوْسٰۤى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْ١ؕ اَسِحْرٌ هٰذَا١ؕ وَ لَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ
قَالَ : کہا مُوْسٰٓى : موسیٰ اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو لِلْحَقِّ لَمَّا : حق کیلئے (نسبت) جب جَآءَكُمْ : وہ آگیا تمہارے پاس اَسِحْرٌ : کیا جادو هٰذَا : یہ وَلَا يُفْلِحُ : اور کامیاب نہیں ہوتے السّٰحِرُوْنَ : جادوگر
موسیٰ ؑ نے کہا: ”تم حق کو یہ کہتے ہو جب کہ وہ تمہارے سامنے آگیا؟ کیا یہ جادُو ہے؟ حالانکہ حالانکہ جادُو گر فلاح نہیں پایا کرتے۔“75
سورة یُوْنُس 74 یعنی حضرت موسیٰ ؑ کا پیغام سن کر وہی کچھ کہا جو کفار مکہ نے محمد ﷺ کا پیغام سن کر کہا تھا کہ ”یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے“۔ (ملاحظہ ہو اسی سورة یونس کی دوسری آیت)۔ یہاں سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہوجاتی ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) بھی دراصل اسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح ؑ اور ان کے بعد کے تمام انبیاء، سیدنا محمد ﷺ تک، مامور ہوتے رہے ہیں۔ اس سورة میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آرہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ توحید و آخرت کی دعوت کو، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغبروں نے پیش کیا ہے، قبول کیا جائے اور اپنا پورا نظام زندگی اسی بنیاد پر قائم کرلیا جائے۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخرکار تباہ ہو کر رہی۔ یہی اس سورة کا مرکزی مضمون ہے، اور اس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازما اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورة میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی دعوت تھی، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا، تو اس سیاق وسباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بےجوڑ ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل (ایک مسلمان قوم) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے (اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے) نجات دلائیں۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورة نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کردیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ الیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہ طَغٰی۔ فَقُلْ ھَلْ لَّکَ الیٰٓ اَنْ تَزَکّٰی۔ وَاَھْدِیَکَ الیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی۔”فرعون کے پاس جا کیونکہ وہ حدّ بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے، اور میں تجھے تیرے رب کی طرف رہنمائی کروں تو تو اس سے ڈرے“ ؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور آخرکار حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہوگیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایاں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد، اور دین حق کی دعوت محض اس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ ، آیات 44 تا 82۔ الزخرف، 46 تا 56۔ المزمل 1516)۔ سورة یُوْنُس 75 ”مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بےتکلف اسے جادو قرار دے دیا، مگر نادانو ! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بےغرض اور بےدھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارت نفس اختیار کرنے کی دعوت دے ؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو ، پھر جب اسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا، چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مل جائے۔ اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جودو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے۔
Top