Tafheem-ul-Quran - Yunus : 92
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۠   ۧ
فَالْيَوْمَ : سو آج نُنَجِّيْكَ : ہم تجھے بچا دیں گے بِبَدَنِكَ : تیرے بدن سے لِتَكُوْنَ : تاکہ تو رہے لِمَنْ : ان کے لیے جو خَلْفَكَ : تیرے بعد آئیں اٰيَةً : ایک نشانی وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری نشانیاں لَغٰفِلُوْنَ : غافل ہیں
اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تا کہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے92 اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔“93
سورة یُوْنُس 92 آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیری ہوئی پائی گئی تھی۔ اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی۔ اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون منفتہ ہے جس کو زمانہ حال کی تحقیق نے فرعون موسیٰ قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔ سن 1907 میں سر گرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی ممی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔ سورة یُوْنُس 93 یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتی۔
Top