Tafheem-ul-Quran - Hud : 105
یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ۚ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ
يَوْمَ : جس دن يَاْتِ : وہ آئے گا لَا تَكَلَّمُ : نہ بات کرے گا نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے شَقِيٌّ : کوئی بدبخت وَّسَعِيْدٌ : اور کوئی خوش بخت
جب و ہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔106 پھر کچھ لوگ اس روز بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت
سورة هُوْد 106 یعنی یہ بے وقوف لوگ اپنی جگہ اس بھروسے میں ہیں کہ فلاں حضرت ہماری سفارش کر کے ہمیں بچالیں گے ، فلاں بزرگ اَڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اپنے ایک ایک متوسل کو بخشوا ئے بغیر نہ مانیں گے ، فلاں صاحب جو اللہ میاں کے چہیتے ہیں جنت کے راستے میں مچل بیٹھیں گے اور اپنے دامن گرفتوں کی بخشش کا پروانہ لے کر ہی ٹلیں گے۔ حالانکہ اَڑنا اور مچلنا کیسا، اُس پُر جلال عدالت میں تو کسی بڑے سے بڑے انسان اور کسی معزز سے معزز فرشتے کو بھی مجال دم زدن تک نہ ہو گی اور اگر کوئی کچھ کہہ بھی سکے گا تو اُس وقت جبکہ احکم الحاکمین خود اسے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیدے۔ پس جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے غیر اللہ کے آستانوں پر نذریں اور نیازیں چڑھا رہے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور اُن کی سفارش کے بھروسے پر اپنے نامۂ اعمال سیاہ کیے جا رہے ہیں ، ان کو وہاں سخت مایوسی سے دوچار ہونا پڑے گا۔
Top