Tafheem-ul-Quran - Hud : 110
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب فَاخْتُلِفَ : سو اختلاف کیا گیا فِيْهِ : اس میں وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : ایک بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : البتہ فیصلہ کردیا جاتا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان وَاِنَّهُمْ : اور بیشک وہ لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مُرِيْبٍ : دھوکہ میں ڈالنے والا
ہم اِس سے پہلے موسیٰ ؑ کو بھی کتا ب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا(جس طرح آج اِس کتاب کےبارےمیں کیا جا رہاہے جو تمہیں دی گئی ہے111)۔ اگر تیرے ربّ کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اِن اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چُکا دیا گیا ہوتا۔112 یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ ا ِس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں
سورة هُوْد 111 یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج اس قرآن کے بارے میں مختلف لوگ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں، بلکہ اس سے پہلے جب موسیٰ ؑ کو کتاب دی گئی تھی تو اس کے بارے میں ایسی ہی مختلف رائے زنیاں کی گئی تھیں، لہذا اے محمد ﷺ ، تم یہ دیکھ کر بددل اور شکستہ خاطر نہ ہو کہ ایسی سیدھی سیدھی اور صاف باتیں قرآن میں پیش کی جا رہی ہیں اور پھر بھی لوگ ان کو قبول نہیں کرتے۔ سورة هُوْد 112 یہ فقرہ بھی نبی ﷺ اور اہل ایمان کو مطمئن کرنے اور صبر دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اس بات کے لیے بےچین نہ ہو کہ جو لوگ اس قرآن کے بارے میں اختلافات کر رہے ہیں ان کا فیصلہ جلدی سے چکا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ طے کرچکا ہے کہ فیصلہ وقت مقرر سے پہلے نہ کیا جائے گا۔ اور یہ کہ دنیا کے لوگ فیصلہ چاہنے میں جو جلد بازی کرتے ہیں، اللہ فیصلہ کردینے میں جلد بازی نہ کرے گا۔
Top