Tafheem-ul-Quran - Hud : 31
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١ۖۚ اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لَكُمْ : تمہیں عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ اللّٰهِ : اللہ کے خزانے وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ وَّ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہیں تَزْدَرِيْٓ : حقیر سمجھتی ہیں اَعْيُنُكُمْ : تمہاری آنکھیں لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ : ہرگز نہ دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ خَيْرًا : کوئی بھلائی اَللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو کچھ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں اِنِّىْٓ : بیشک میں اِذًا : اس وقت لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : البتہ ظالموں سے
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعوٰی ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔37 اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا۔“
سورة هُوْد 37 یہ اس بات کا جواب ہے کہ جو مخالفین نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم بس اپنے ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہو۔ اس پر حضرت نوح ؑ فرماتے ہیں کہ واقعی میں ایک انسان ہی ہوں، میں نے انسان کے سوا کچھ اور ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا کہ تم مجھ پر یہ اعتراض کرتے ہو۔ میرا دعویٰ جو کچھ ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ خدا نے مجھے علم و عمل کا سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ اس کی آزمائش تم جس طرح چاہو کرلو۔ مگر اس دعوے کی آزمائش کا آخر یہ کونسا طریقہ ہے کہ کبھی تم مجھ سے غیب کی خبریں پوچھتے ہو، اور کبھی ایسے ایسے عجیب مطالبے کرتے ہو گویا خدا کے خزانوں کی ساری کنجیاں میرے پاس ہیں، اور کبھی اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ میں انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہوں، گویا میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ جس آدمی نے عقائد، اخلاق اور تمدن میں صحیح رہبری کا دعویٰ کیا ہے اس سے ان چیزوں کے متعلق جو چاہو پوچھو، مگر تم عجیب لوگ ہو جو اس سے پوچھتے ہو کہ فلاں شخص کی بھینس کٹڑا جنے گی یا پڑیا۔ گویا انسانی زندگی کے لیے صحیح اصول اخلاق و تمدن بتانے کا کوئی تعلق بھینس کے حمل سے بھی ہے ! (ملاحظہ ہو سورة انعام، 31، 32)
Top