Tafheem-ul-Quran - Hud : 35
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۠   ۧ
اَمْ : کیا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : بنا لایا ہے اس کو قُلْ : کہ دیں اِنِ افْتَرَيْتُهٗ : اگر میں نے اسے بنا لیا ہے فَعَلَيَّ : تو مجھ پر اِجْرَامِيْ : میرا گناہ وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : بری مِّمَّا : اس سے جو تُجْرِمُوْنَ : تم گناہ کرتے ہو
اے محمد ؐ ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو”اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جُرم کی ذمّہ داری ہے ، اور جو جُرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بری ہوں۔“39
سورة هُوْد 39 انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کی زبان سے حضرت نوح ؑ کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہوگا کہ محمد ﷺ یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتا ہے اور اس طرح ”در حدیث دیگراں“ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے۔ لہٰذا سلسلہ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اس فقرے میں دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے برے پہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جاسکے۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمے بھی الٹی کچھ برائی لگا دے۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جاسکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے ”چوٹ“ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر کی بنا پر ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور ان بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو تم ایک دانش مند آدمی ہوگے اگر اسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اٹھاؤ گے، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کرلیا ہے۔ اسی بنا پر یہ فرمایا کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں۔
Top