Tafheem-ul-Quran - Hud : 39
فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
فَسَوْفَ : سو عنقریب تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے مَنْ يَّاْتِيْهِ : کس پر آتا ہے عَذَابٌ : ایسا عذاب يُّخْزِيْهِ : اس کو رسوا کرے وَيَحِلُّ : اور اترتا ہے عَلَيْهِ : اس پر عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : دائمی
عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اُسے رُسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی۔“ 41
سورة هُوْد 41 یہ ایک عجیب معاملہ ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے ظاہر سے کس قدر دھوکا کھاتا ہے۔ جب نوح ؑ ؑ دریا سے بہت دور خشکی پر اپنا جہاز بنا رہے ہوں گے تو فی الواقع لوگوں کو یہ ایک نہایت مضحکہ خیز فعل محسوس ہوتا ہوگا اور وہ ہنس ہنس کر کہتے ہوں گے کہ بڑے میاں کی دیوانگی آخر کو یہاں تک پہنچی کہ اب آپ خشکی میں جہاز چلائیں گے۔ اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی بات نہ آسکتی ہوگی کہ چند روز بعد واقعی یہاں جہاز چلے گا۔ وہ اس فعل کو حضرت نوح ؑ کی خرابی دماغ کا ایک صریح ثبوت قرار دیتے ہوں گے اور ایک ایک سے کہتے ہوں گے کہ اگر پہلے تمہیں اس شخص کے پاگل پن میں کچھ شبہہ تھا تو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ یہ کیا حرکت کر رہا ہے۔ لیکن جو شخص حقیقت کا علم رکھتا تھا اور جسے معلوم تھا کہ کل یہاں جہاز کی کیا ضرورت پیش آنے والی ہے اسے ان لوگوں کی جہالت و بیخبر ی پر اور پھر ان کے احمقانہ اطمینان پر الٹی ہنسی آتی ہوگی اور وہ کہتا ہوگا کہ کس قدر نادان ہیں یہ لوگ کہ شامت ان کے سر پر تلی کھڑی ہے، میں انہیں خبردار کرچکا ہوں کہ وہ بس آیا چاہتی ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس سے بچنے کی تیاری بھی کر رہا ہوں، مگر یہ مطمٔن بیٹھے ہیں اور الٹا مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہیں۔ اس معاملہ کو اگر پھیلا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے ظاہر و محسوس پہلو کے لحاظ سے عقلمندی و بےوقوفی کا جو معیار قائم کیا جاتا ہے وہ اس معیار سے کس قدر مختلف ہوتا ہے جو علم حقیقت کے لحاظ سے قرار پاتا ہے۔ ظاہر بیں آدمی جس چیز کو انتہائی دانش مندی سمجھتا ہے وہ حقیقت شناس آدمی کی نگاہ میں انتہائی بےوقوفی ہوتی ہے، اور ظاہر بیں کے نزدیک جو چیز بالکل لغو، سراسر دیوانگی اور نرا مضحکہ ہوتی ہے، حقیقت شناس کے لیے وہی کمال دانش، انتہائی سنجیدگی اور عین مقتضائے عقل ہوتی ہے۔
Top