Tafheem-ul-Quran - Hud : 47
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْئَلَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ اِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَ تَرْحَمْنِیْۤ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْٓ اَعُوْذُ : میں پناہ چاہتا ہوں بِكَ : تیری اَنْ : کہ اَسْئَلَكَ : میں سوال کروں تجھ سے مَا لَيْسَ : ایسی بات کہ نہیں لِيْ : مجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم وَ : اور اِلَّا تَغْفِرْ لِيْ : اگر تو نہ بخشے مجھے وَتَرْحَمْنِيْٓ : اور تمجھ پر رحم نہ کرے اَكُنْ : ہوجاؤں مِّنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان پانے والے
نُوح ؑ نے فوراً عرض کیا”اے میرے ربّ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تُو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاوٴں گا۔“51
سورة هُوْد 50 اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح ؑ کے اندر روح ایمان کی کمی تھی، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے۔ لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے، وہ فورا توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اس ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح ؑ کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محص ایک جاہلیت کا جذبہ ہے، تو وہ فورا اپنے دل کے زخم سے بےپروا ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔ سورة هُوْد 51 پسر نوح ؑ کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرایہ میں یہ بتایا ہے کہ اس کا انصاف کس قدر بےلاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتاؤں کے متوسل ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں۔ اور بہت سے غلط کار مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے، لیکن دربار خداوندی سے الٹی اس پر ڈانٹ پڑجاتی ہے اور باپ کی پیغمبری بھی ایک بد عمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی۔
Top