Tafheem-ul-Quran - Hud : 52
وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اسْتَغْفِرُوْا : تم بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : اس کی طرف رجوع کرو يُرْسِلِ : وہ بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : زور کی بارش وَّيَزِدْكُمْ : اور تمہیں بڑھائے گا قُوَّةً : قوت اِلٰي : طرف (پر) قُوَّتِكُمْ : تمہاری قوت وَلَا تَتَوَلَّوْا : اور روگردانی نہ کرو مُجْرِمِيْنَ : مجرم ہو کر
اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔57 مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔“
سورة هُوْد 57 یہ وہی بات ہے جو پہلے رکوع میں محمد ﷺ سے کہلوائی گئی تھی کہ ”اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تم کو اچھا سامان زندگی دے گا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ ان طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز سے خالی ہوں۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اس پیغام کے ساتھ معلق ہوجاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کردیتی ہے تو اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے۔ یہ گویا ایک دفعہ ہے اس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے۔ اسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس برے انجام کی طرف بگ ٹٹ چلی جا رہی ہو، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کرلے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔
Top