Tafheem-ul-Quran - Hud : 62
قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَاۤ اَتَنْهٰىنَاۤ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ
قَالُوْا : وہ بولے يٰصٰلِحُ : اے صالح قَدْ كُنْتَ : تو تھا فِيْنَا : ہم میں (ہمارے درمیان) مَرْجُوًّا : مرکز امید قَبْلَ ھٰذَآ : اس سے قبل اَتَنْهٰىنَآ : کیا تو ہمیں منع کرتا ہے اَنْ نَّعْبُدَ : کہ ہم پرستش کریں مَا يَعْبُدُ : اسے جس کی پرستش کرتے تے اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَاِنَّنَا : اور بیشک ہم لَفِيْ شَكٍّ : شک میں ہیں مِّمَّا : اس سے جو تَدْعُوْنَآ : تو ہمیں بلاتا ہے اِلَيْهِ : اس کی طرف مُرِيْبٍ : قوی شبہ میں
اُنہوں نے کہا”اے صالح ؑ ، اس سے پہلے تُو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔70 کیا تُو ہمیں اُن معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟71 تُو جس طریقے کی طرف ہمیں بُلا رہا ہے اُس کے بارے میں ہم کو سخت شُبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے۔“72
سورة هُوْد 70 یعنی تمہاری ہوشمندی، ذکاوت، فراست، سنجیدگی و متانت اور پروقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گے۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤ گے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے ہی کچھ خیالات محمد ﷺ کے متعلق بھی آپ کے ہم قوموں میں پائے جاتے تھے۔ وہ بھی نبوت سے پہلے آپ ﷺ کی بہترین قابلیتوں کے معترف تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص ایک بہت بڑا تاجر بنے گا اور اس کی بدار مغزی سے ہم کو بھی بہت کچھ فائدہ پہنچے گا۔ مگر جب ان کی توقعات کے خلاف آپ ﷺ نے توحید وآخرت اور مکارم اخلاق کی دعوت دینی شروع کی تو وہ آپ ﷺ سے نہ صرف مایوس، بلکہ بیزار ہوگئے اور کہنے لگے کہ اچھا خاصا کام کا آدمی تھا، خدا جانے اسے کیا جنون لاحق ہوگیا کہ اپنی زندگی بھی برباد کی اور ہماری امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا۔ سورة هُوْد 71 یہ گویا دلیل ہے اس امر کی کہ یہ معبود کیوں عبادت کے مسحق ہیں اور ان کی پوجا کس لیے ہوتی رہنی چاہیے۔ یہاں جاہلیت اور اسلام کے طرز استدلال کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے۔ حضرت صالح ؑ نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، اور اس پر دلیل یہ دی تھی کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کی مشرک قوم کہتی ہے کہ ہمارے یہ معبود بھی مستحق عبادت ہیں اور ان کی عبادت ترک نہیں کی جاسکتی کیونکہ باپ دادا کے وقتوں سے ان کی عبادت ہوتی چلی آرہی ہے۔ یعنی مکھی پر مکھی صرف اس لیے ماری جاتی رہنی چاہیے کہ ابتدا میں کسی بیوقوف نے اس جگہ مکھی مار دی تھی اور اب اس مقام پر مکھی مارتے رہنے کے لیے اس کے سوا کسی معقول وجہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں مدتوں سے مکھی ماری جا رہی ہے۔ سورة هُوْد 72 یہ شبہہ اور یہ خلجان کس امر میں تھا ؟ اس کی کوئی تصریح یہاں نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلجان میں تو سب پڑگئے تھے، مگر ہی ایک خلجان الگ نوعیت کا تھا۔ یہ دعوت حق کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو لوگوں کا اطمینان قلب رخصت ہوجاتا ہے اور ایک عام بےکلی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے احساسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بےکلی میں سے سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل کر رہتا ہے۔ اس سے پہلے جس اطمینان کے ساتھ لوگ اپنی ضلالتوں میں منہمک رہتے تھے اور کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، وہ اطمینان اس دعوت کے اٹھنے کے بعد باقی نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ نظام جاہلیت کی کمزوریوں پر داعی حق کی بےرحم تنقید، اثبات حق کے لے اس کے پرزور اور دل لگتے دلائل، پھر اس کے بلند اخلاق، اس کا عزم، اس کا حلم، اس کی شرافت نفس، اس کا نہایت کھرا اور راستبازانہ رویہ اور اس کی وہ زبردست حکیمانہ شان جس کا سکہ بڑے سے بڑے ہٹ دھرم مخالف کے دل پر بھی بیٹھ جاتا ہے، پھر وقت کی سوسائٹی میں سے بہترین عناصر کا اس سے متاثر ہوتے چلے جانا اور ان کی زندگیوں میں دعوت حق کی تاثیر سے غیر معمولی انقلاب رونما ہونا، یہ ساری چیزیں مل جل کر ان سب لوگوں کے دلوں کو بےچین کر ڈالتی ہیں جو حق آجا نے کے بعد بھی پرانی جاہلیت کا بول بالا رکھنا چاہتے ہیں۔
Top