Tafheem-ul-Quran - Hud : 87
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا١ؕ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ
قَالُوْا : وہ بولے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب اَصَلٰوتُكَ : کیا تیری نماز تَاْمُرُكَ : تجھے حکم دیتی ہے اَنْ : کہ نَّتْرُكَ : ہم چھوڑ دیں مَا يَعْبُدُ : جو پرستش کرتے تھے اٰبَآؤُنَآ : ہمارے باپ دادا اَوْ : یا اَنْ نَّفْعَلَ : ہم نہ کریں فِيْٓ اَمْوَالِنَا : اپنے مالوں میں مَا نَشٰٓؤُا : جو ہم چاہیں اِنَّكَ : بیشک تو لَاَنْتَ : البتہ تو الْحَلِيْمُ : بردبار (باوقار) الرَّشِيْدُ : نیک چلن
انہوں نے جواب دیا”اے شعیب ؑ ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے96 کہ ہم اُن سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟97 بس تُو ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے !“
سورة هُوْد 96 یہ دراصل ایک طعن آمیز فقرہ ہے جس کی روح آج بھی آپ ہر اُس سوسائٹی میں پائیں گے جو خدا سے غافل اور فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی ہو۔ چونکہ نماز دینداری کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ نمایاں مظہر ہے، اور دینداری کو فاسق و فاجر لوگ ایک خطرناک ، بلکہ سب سے زیادہ خطرناک مرض سمجھتے ہیں، اس لیے نماز ایسے لوگوں کی سوسائٹی میں عبادت کے بجائے علامتِ مرض شمار ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اپنے درمیان نماز پڑھتے دیکھ کر انہیں فورًا یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اس شخص پر ”مرضِ دینداری“ کا حملہ ہو گیا ہے۔ پھر یہ لوگ دینداری کی اس خاصیت کو بھی جانتے ہیں کہ یہ چیز جس شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہے وہ صرف اپنے حسنِ عمل پر قانع نہیں رہتا بلکہ دوسروں کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بے دینی و بد اخلاقی پر تنقید کیے بغیر اُس سے رہا نہیں جاتا، اس لیے نماز پر ان کا اضطراب صرف اسی حیثیت سے نہیں ہوتا کہ ان کے ایک بھائی پر دینداری کا دورہ پڑ گیا ہے ، بلکہ اس کے ساتھ انہیں یہ کھٹکا بھی لگ جاتا ہے کہ اب عنقریب اخلاق و دیانت کا وعظ شروع ہونے والا ہے اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں کیڑے نکالنے کا ایک لا متناہی سلسلہ چھڑ اچاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوسائٹی میں نماز سب سے بڑھ کر طعن و تشنیع کی ہدف بنتی ہے۔ اور اگر کہیں نمازی آدمی ٹھیک ٹھیک اُنہی اندیشوں کے مطابق ، جو اس کی نماز سے پہلے ہی پیدا ہو چکے تھے، برائیوں پر تنقید اور بھلائیوں کی تلقین بھی شروع کر دے تب تو نماز اس طرح کوسی جاتی ہے کہ گویا یہ ساری بلا اسی کی لائی ہوئی ہے۔ سورة هُوْد 97 یہ اسلام کے مقابلے میں جاہلیت کے نظریے کی پوری ترجمانی ہے۔ اسلام کا نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے سوا جو طریقہ بھی ہے غلط ہے اور اس کی پیروی نہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ دوسرے کسی طریقے کے لیے عقل، علم اور کتب ِ آسمانی میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ اللہ کی بندگی صرف ایک محدود مذہبی دائرے ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمدن ، معاشرت، معیشت، سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کا ہے اور انسان کسی چیز پر بھی اللہ کی مرضی سے آزاد ہو کر خود مختارانہ تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کے مقابلے میں جاہلیت کا نظریہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو طریقہ بھی چلا آرہا ہو انسان کو اُسی کی پیروی کرنی چاہیے اور اس کی پیروی کے لیے اس دلیل کے سوا کسی مزید دلیل کی ضرور ت نہیں ہے کہ وہ باپ دادا کا طریقہ ہے۔ نیز یہ کہ دین و مذہب کا تعلق صرف پوجا پاٹ سے ہے، رہے ہماری زندگی کے عام دنیاوی معاملات ، تو ان میں ہم کو پوری آزادی ہونی چاہیے کہ جس طرح چاہیں کام کریں۔ اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیاوی دائروں میں الگ الگ تقسیم کرنے کا تخیل آج کوئی نیا تخیل نہیں ہے بلکہ آج سے تین ساڑھے تین ہزار برس پہلے حضرت شعیبؑ کی قوم کو بھی اس تقسم پر ویسا ہی اصرار تھا جیسا آج اہلِ مغرب اور اُن کے مشرقی شاگردوں کو ہے۔ یہ فی الحقیقت کوئی نئی ”روشنی“ نہیں ہے جو انسان کو آج ”ذہنی ارتقاء“ کی بدولت نصیب ہو گئی ہو۔ بلکہ یہ وہی پرانی تاریک خیالی ہے جو ہزار ہا برس پہلے جی جاہلیت میں بھی اسی شان سے پائی جاتی تھی۔ اور اس کے خلاف اسلام کی کش مکش بھی آج کی نہیں ہے، بہت قدیم ہے۔
Top