Tafheem-ul-Quran - Hud : 91
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا١ۚ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ١٘ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰشُعَيْبُ : اے شعیب مَا نَفْقَهُ : ہم نہیں سمجھتے كَثِيْرًا : بہت مِّمَّا تَقُوْلُ : ان سے جو تو کہتا ہے وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَنَرٰىكَ : تجھے دیکھتے ہیں فِيْنَا : اپنے درمیان ضَعِيْفًا : ضعیف (کمزور) وَلَوْ : اور اگر لَا رَهْطُكَ : تیرا کنبہ نہ ہوتا لَرَجَمْنٰكَ : تجھ پر پتھراؤ کرتے وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : تو عَلَيْنَا : ہم پر بِعَزِيْزٍ : غالب
انہوں نے جواب دیا ”اے شعیب ؑ ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں۔102 اور ہم دیکھتے ہیں کہ تُو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے ، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو۔“103
سورة هُوْد 102 یہ سمجھ میں نہ آنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ حضر شعیبؑ کسی غیر زبان میں کلام کرتے تھے، یا ان کی باتیں بہت مُغلق اور پیچیدہ ہوتی تھیں۔ باتیں تو سب صاف اور سیدھی ہی تھیں اور اُسی زبان میں کی جاتی تھیں جو یہ لوگ بولتے تھے، لیکن ان کے ذہن کا سانچا اس قدر ٹیڑھا ہو چاک تھا کہ حضرت شعیبؑ کی سیدھی باتیں کسی طرح اس میں نہ اُتر سکتی تھیں۔ قاعدے کی بات ہے کہ جو لوگ تعصبات اور خواہش نفس کی بندگی میں شدت کے ساتھ مبتلا ہوتے ہیں اور کسی خاص طرزِ خیال پر جامد ہو چکے ہوتے ہیں، وہ اوّل تو کوئی ایسی بات سن ہی نہیں سکتے جو ان کے خیالات سے مختلف ہو، اور اگر سُن بھی لیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس دنیا کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ سورة هُوْد 103 یہ بات پیش نظر رہے کہ بعینہ یہی صورت حال ان آیات کے نزول کے وقت مکہ میں درپیش تھی۔ اس وقت قریش کے لوگ بھی محمد ﷺ کے خون کے اس طرح پیاسے ہو رہے تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے آپ پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے تھے کہ بنی ہاشم آپ کی پشت پر تھے۔ پس حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا یہ قصہ ٹھیک ٹھیک قریش اور محمد ﷺ کے معاملے پر چسپاں کرتے ہوئے بیان کیا جا رہا ہے۔ اور آگے حضرت شعیب علیہ السلام کا جو انتہائی سبق آموز جواب نقل کیا گیا ہے اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اے قریش کے لوگو تم کو بھی محمد ﷺ کی طرف سے یہی جواب ہے۔
Top