Tafheem-ul-Quran - Ar-Ra'd : 41
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ١ؕ وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم چلے آتے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹائے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے ۭوَاللّٰهُ : اور اللہ يَحْكُمُ : حکم فرماتا ہے لَا مُعَقِّبَ : کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں لِحُكْمِهٖ : اس کے حکم کو وَهُوَ : اور وہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں؟60 اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے، اور حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
سورة الرَّعْد 60 یعنی کیا تمہارے مخلافین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سر زمین عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے ان پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے ؟ یہ ان کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ”ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں“ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے۔ کیونکہ دعوت حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے کسی سر زمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں۔
Top