Tafheem-ul-Quran - Ibrahim : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہٴ طیّبہ34 کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمّی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں35
سورة اِبْرٰهِیْم 34 کلمہ طیبہ کے لفظی معنی ”پاکیزہ بات“ کے ہیں، مگر اس سے مراد وہ قول حق اور عقیدہ صالحہ جو سراسر حقیقت اور راستی پر مبنی ہو۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رو سے لازما وہی ہوسکتا ہے جس میں توحید کا اقرار، انبیاء (علیہم السلام) اور کتب آسمانی کا اقرار، اور آخرت کا اقرار ہو، کیونکہ قرآن انہی امور کو بنیادی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ سورة اِبْرٰهِیْم 35 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظام کائنات اسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانون فطرت اس سے نہیں ٹکراتا، کسی شے کی بھی اصل اور جبلت اس سے ابا نہیں کرتی، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اس سے متصادم نہیں ہوتی۔ اسی لیے زمین اور اس کا پورا نظام اس سے تعاون کرتا ہے، اور آسمان اور اس کا پورا عالم اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔
Top