Tafheem-ul-Quran - Ibrahim : 36
رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ١ۚ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ١ۚ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
رَبِّ : اے میرے رب اِنَّهُنَّ : بیشک وہ اَضْلَلْنَ : انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت مِّنَ : سے النَّاسِ : لوگ فَمَنْ : پس جو۔ جس تَبِعَنِيْ : میری پیروی کی فَاِنَّهٗ : بیشک وہ مِنِّىْ : مجھ سے وَمَنْ : اور جو۔ جس عَصَانِيْ : میری نافرمانی کی فَاِنَّكَ : تو بیشک تو غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پروردگار ، اِن بُتوں نے بہتوں کو گُمراہی میں ڈالا ہے48(ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گُمراہ کر دیں، لہٰذا اُن میں سے)جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔49
سورة اِبْرٰهِیْم 48 یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے۔ یہ مجازی کلام ہے۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔ سورة اِبْرٰهِیْم 49 یہ حضرت ابراہیم ؑ کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وارْزُقْ اَھْلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ باللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ (البقرہ۔ آیت 126)۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اسے سزا دے ڈالیو، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ ان کے معاملہ میں کیا عرض کروں، تو غفورٌرَّحِیْم ہے۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قوم لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جا رہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ”ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا“ (ہود، آیت 74)۔ یہی حال حضرت عیسیٰ ؑ کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کردیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ ”اگر حضور ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ بالادست اور حکیم ہیں“ (المائدہ، آیت 118)
Top