Tafheem-ul-Quran - Ibrahim : 3
اِ۟لَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍۭ بَعِیْدٍ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَسْتَحِبُّوْنَ : پسند کرتے ہیں الْحَيٰوةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا عَلَي الْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَيَبْغُوْنَھَا : اور اس میں ڈھونڈتے ہیں عِوَجًا : کجی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍۢ : گمراہی بَعِيْدٍ : دور
جو دُنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں،3 جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق)ٹیڑھا ہو جائے۔4 یہ لوگ گمراہی میں بہت دُور نکل گئے ہیں
سورة اِبْرٰهِیْم 3 یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے، آخرت کی پروا نہیں ہے۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کرسکتے۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کرلیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کرچکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرائے گا وہاں اسے قربان کرتے چلے جائیں گے۔ سورة اِبْرٰهِیْم 4 یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین ان کی مرضی کا تابع ہو کر رہے۔ ان کے ہر خیال، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظام فکر میں نہ رہنے دے جو ان کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو۔ ان کی ہر رسم، ہر عادت، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا ان سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو۔ وہ ان کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطان نفس کے اتباع میں مڑیں ادھر وہ بھی جائے، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راستہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ وہ اللہ کی بات صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے۔
Top