Tafheem-ul-Quran - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں49 اور تمہیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے۔50
سورة الْحِجْر 49 یعنی سورة فاتحہ کی آیات۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ سات بڑی بڑی سورتیں بھی لی ہیں جن میں دو دو سو آیتیں ہیں، یعنی البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور یونس، یا انفاق و توبہ۔ لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورة فاتحہ ہی مراد ہے۔ بلکہ امام بخاری نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خود نبی ﷺ نے سبع من المثانی سے مراد سورة فاتحہ بتائی ہے۔ سورة الْحِجْر 50 یہ بات بھی نبی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب حضور ﷺ اور آپ کے ساتھی سب کے سب انتہائی خستہ حالی میں مبتلا تھے۔ کار نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضور ﷺ کی تجارت قریب قریب ختم ہوچکی تھی اور حضرت خدیجہ ؓ کا سرمایہ بھی دس بارہ سال کے عرصے میں خرچ ہوچکا تھا۔ مسلمانوں میں سے بعض کم سن نوجوان تھے جو گھروں سے نکال دیے گئے تھے، بعض صنعت پیشہ یا تجارت پیشہ تھے جن کے کاروبار معاشی مقاطعہ کی مسلسل ضرب سے بالکل بیٹھ گئے تھے، اور بعض بیچارے پہلے ہی غلام یا موالی تھے جن کی کوئی معاشی حیثیت نہ تھی۔ اس پر مزید یہ ہے کہ حضور ﷺ سمیت تمام مسلمان مکہ اور اطراف و نواح کی بستیوں میں انتہائی مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر طرف سے مطعون تھے، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے، اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیتوں سے بھی کوئی بچا ہوا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارن قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح کی خوشحالیوں میں مگن تھے۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو، تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔ رشک کے لائق تمہاری یہ علمی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ ان لوگوں کی مادی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے کما رہے ہیں اور طرح طرح کے حرام راستوں میں اس کمائی کو اڑا رہے ہیں اور آخر کار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔
Top