Tafheem-ul-Quran - Al-Hijr : 47
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
جب ہم ایک آیت کی جگہ دُوسری آیت نازل کرتے ہیں۔۔۔۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے۔۔۔۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خود گھڑتے ہو۔102 اصل بات یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں
سورة النَّحْل 102 ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو، تین تین حکم بھیجے گئے ہیں۔ مثلا شراب کا معاملہ، یا زنا کی سزا کا معاملہ۔ لیکن ہم کو یہ معنی لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورة نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے، اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال پیش نہ آئی تھی۔ اس لیے ہم یہاں ”ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک معاملہ کا کبھی ایک پہلو پیش کیا گیا ہے اور کبھی اسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل۔ ایک بات ایک وقت میں مجمل طور پر کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل۔ یہی چیز تھی جسے کفار مکہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد ﷺ ، معاذ اللہ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع علم الہی ہوتا تو پوری بات بیک وقت کہہ دی جاتی۔ اللہ کوئی انسان کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر آرہی ہیں۔
Top