Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 124
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں جُعِلَ : مقرر کیا گیا السَّبْتُ : ہفتہ کا دن عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَيَحْكُمُ : البتہ فیصلہ کریگا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
رہا سَبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلّط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا،121 اور یقیناً تیرا ربّ قیامت کے روز ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں
سورة النَّحْل 121 یہ کفار مکہ کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ اس میں یہ بیان کرنے کی حاجت نہ تھی کہ سبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور ملت ابراہیمی میں حرمت سبت کا کوئی وجود نہ تھا، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان پر عائد کی گئی تھیں۔ قرآن مجید کے اس اشارے کو آدمی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ ایک طرف بائیبل کے ان مقامات کو نہ دیکھے جہاں سبت کے احکام بیان ہوئے ہیں (مثلاً ملاحظہ ہو خروج باب 20، آیت 8 تا 11۔ باب 23، آیت 12 و 13۔ باب 31، آیت 12 تا 17۔ باب 35، آیت 2 و 3۔ گنتی باب 15، آیت 32 تا 36) ، اور دوسری طرف ان جسارتوں سے واقف نہ ہو جو یہودی سبت کی حرمت کو توڑنے میں ظاہر کرتے رہے (مثلًا ملاحظہ ہو یر میاہ باب 17، آیت 21 تا 27۔ حِزقِی ایل، باب 20، آیت 12 تا 24
Top