Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کی بنے گی)جب کہ ہم ہر اُمّت میں سے ایک گواہ80 کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حُجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا81 نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا۔82
سورة النَّحْل 80 یعنی اس امت کا نبی، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس امت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو، شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو، اور روز قیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق ان لوگوں کو پہنچا دیا تھا، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ جانتے بوجھتے کیا۔ سورة النَّحْل 81 یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابل انکار اور ناقابل تاویل شہادتوں سے ثابت کردیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی۔ سورة النَّحْل 82 یعنی اس وقت ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہوگا، معافی طلب کرنے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ قرآن اور حدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ تو بہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثار موت طاری نہیں ہوجاتے جس وقت آدمی کو یقین ہوجائے کہ اسکا آخری وقت آن پہنچا ہے اس وقت کی توبہ ناقابل قبول ہے۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا اسحقاق باقی نہیں رہ جاتا ہے۔
Top