Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 15
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
مَنِ : جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اپنے اوپر (اپنے بڑے کو) وَلَا تَزِرُ : اور بوجھ نہیں اٹھاتا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : دوسرے کا بوجھ وَ : اور مَا كُنَّا : ہم نہیں مُعَذِّبِيْنَ : عذاب دینے والے حَتّٰى : جب تک نَبْعَثَ : ہم (نہ) بھیجیں رَسُوْلًا : کوئی رسول
جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گُمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔15 کوئی بوجھ اُٹھانے والا دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔16 اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے)ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔17
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 15 یعنی راہ راست اختیار کر کے کوئی شخص خدا پر، یا رسول پر، یا اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے۔ اور اسی طرح گمراہی اختیار کر کے یا اس پر اصرار کر کے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ خدا اور رسول اور داعیان حق انسان کو غلط راستوں سے بچانے اور صحیح راہ دکھانے کی جو کوشش کرتے ہیں وہ اپنی کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی خیر خواہی کے لیے کرتے ہیں۔ ایک عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ جب دلیل سے اس کے سامنے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کردیا جائے تو وہ تعصبات اور مفاد پرستیوں کو چھوڑ کر سیدھی طرح باطل سے باز آجائے اور حق اختیار کرلے۔ تعصب یا مفاد پرستی سے کام لے گا تو وہ اپنا آپ ہی بدخواہ ہوگا۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 16 یہ ایک نہایت اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ ذہن نشین کرنے کے کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اسے سمجھے بغیر انسان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہوسکتا۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے اور اپنی شخصی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ دنیا میں خواہ کتنے ہی آدمی، کتنی ہی قومیں اور کتنی یہ نسلیں اور پشتیں ایک کام یا ایک طریق عمل میں شریک ہوں، بہرحال خدا کی آخری عدالت میں اس مشرک عمل کا تجزیہ کر کے ایک ایک انسان کی ذاتی ذمہ داری الگ مشخص کرلی جائے گی اور اس کو جو کچھ بھی جزا یا سزا ملے گی، اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہوگا۔ اس انصاف کی میزان میں نہ یہ ممکن ہوگا کہ دوسروں کے کیے کا وبال اس پر ڈال دیا جائے، اور نہ یہی ممکن ہوگا کہ اس کے کرتوتوں کا بار گناہ کسی اور پر پڑجائے۔ اس لیے ایک دانش مند آدمی کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کا کیا کر رہے ہیں، بلکہ اسے ہر وقت اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذاتی ذمہ دار کا صحیح احساس ہو تو دوسرے خواہ کچھ کر رہے ہوں، وہ بہرحال اسی طرز عمل پر ثابت قدم رہے گا جس کی جواب دہی خدا کے حضور وہ کامیابی کے ساتھ کرسکتا ہو۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 17 یہ ایک اور اصولی حقیقت ہے جسے قرآن بار بار مختلف طریقوں سے انسان کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نظام عدالت میں پیغمبر ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پیغمبر اور اس کا لایا ہوا پیغام ہی بندوں پر خدا کی حجت ہے۔ یہ حجت قائم نہ ہوں تو بندوں کو عذاب دینا خلاف انصاف ہوگا، کیونکہ اس صورت میں وہ یہ عذر پیش کرسکیں گے کہ ہمیں آگاہ کیا ہی نہ گیا تھا پھر اب ہم پر یہ گرفت کیسی۔ مگر جب یہ حجت قائم ہوجائے تو اس کے بعد انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان لوگوں کو سزا دی جائے جنہوں نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغام سے منہ موڑا ہو، یا اسے پا کر پھر اس سے انحراف کیا ہو۔ بیوقوف لوگ اس طرح کی آیات پڑھ کر اس سوال پر غور کرنے لگتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس کسی نبی کا پیغام نہیں پہنچا ان کی پوزیشن کیا ہوگی۔ حالانکہ ایک عقلمند آدمی کو غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ تیرے پاس تو پیغام پہنچ چکا ہے۔ اب تیری اپنی پوزیشن کیا ہے۔ رہے دوسرے لوگ، تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے پاس، کب، کس طرح اور کس حد تک اس کا پیغام پہنچا اور اس نے اس کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کیا اور کیوں کیا۔ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کس پر اللہ کی حجت پوری ہوئی ہے اور کس پر نہیں ہوئی۔
Top