Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔31
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 31 یہ آیت ان معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کردیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبط ولادت کی تحریک اٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتل اطفال اور اسقاط حمل کا محرک ہوا کرتا تھا، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر ان تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانون فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے، اتنے ہی، بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بےجا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔
Top