Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے42
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 42 اس دفعہ کا منشاء یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے ”علم“ کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشاء کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں، قانون میں، سیاست اور انتظام ملکی میں، علوم و فنون اور نظام تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور ان بیشمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کردیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کردیا گیا کہ محض شبہے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کردی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی ان نام نہاد علوم کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن وتخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔
Top