Tafheem-ul-Quran - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ : کیا گمان کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا اَنْ يَّتَّخِذُوْا : کہ وہ بنالیں گے عِبَادِيْ : میرے بندے مِنْ دُوْنِيْٓ : میرے سوا اَوْلِيَآءَ : کارساز اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نُزُلًا : ضیافت
تو کیا 74 یہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں؟ 75 ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے یے جہنّم تیار کر رکھی ہے
سورة الْكَهْف 74 یہ پوری سورت کا خاتمۂ کلام ہے، اس لیے اس کی مناسبت ذو القرنین کے قصے میں نہیں بلکہ سورة کے مجموعی مضمون میں تلاش کرنی چاہیے۔ سورة کا مجموعی مضمون یہ ہے کہ نبی ﷺ اپنی قوم کو شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرنے اور دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت پر یقین لانے کی دعوت دے رہے تھے۔ مگر قوم کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت اور شوکت و حشمت کے زعم میں نہ صرف آپ کی اس دعوت کو رد کر رہے تھے، بلکہ ان چند راستی پسند انسانوں کو بھی، جنہوں نے یہ دعوت قبول کرلی تھی، ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اور پھر وہ ساری تقریر کی گئی جو شروع سورة سے یہاں تک چلی آ رہی ہے، اور اسی تقریر کے دوران میں یکے بعد دیگرے ان تین قصوں کو بھی، جنہیں مخالفین نے امتحاناً دریافت کیا تھا۔ ٹھیک موقع پر نگینوں کی طرح جڑ دیا گیا۔ اب تقریر ختم کرتے ہوئے پھر کلام کا رخ اسی مدعا کی طرف پھیرا جارہا ہے جسے تقریر کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا اور جس پر رکوع 4 سے 8 تک مسلسل گفتگو کی جا چکی ہے۔ سورة الْكَهْف 75 یعنی یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان کا خیال یہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ روشن ان کے لیے نافع ہوگی ؟
Top