Tafheem-ul-Quran - Maryam : 15
وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠   ۧ
وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلَيْهِ : اس پر يَوْمَ : جس دن وُلِدَ : وہ پیدا ہوا وَيَوْمَ : اور جس دن يَمُوْتُ : وہ فوت ہوگا وَيَوْمَ : اور جس دن يُبْعَثُ : اٹھایا جائے گا حَيًّا : زندہ ہو کر
سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اُٹھا یا جائے۔ 12
سورة مَرْیَم 12 حضرت یحییٰ کے جو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں جمع کر کے ہم یہاں ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پش کرتے ہیں جس سے سورة آل عمران اور اس سورے کے مختصر اشارات کی توضیح ہوگی۔ لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحیی، حضرت عیسیٰ سے 6۔ مہینے بڑے تھے۔ ان کی والدہ اور حضرت عیسیٰ کی والدہ آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں۔ تقریباً 30 سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوئے اور یوحنا کی روایت کے مطابق انہوں نے شرق اردن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ وہ کہتے تھے " میں بیابان ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو " (یوحنا 231) مرقس کا بیان ہے کہ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کرنے والے کو بپتسمہ دیتے تھے۔ یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ روح اور جسم دونوں پاک ہوجائیں، یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہوگئے تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے (مرقس 41۔ 5) اسی بنا پر ان کا نام یوحنا بپتسمہ والا (John TheBaptist) مشہور ہوگیا تھا۔ عام طور پر بنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کرچکے تھے (متی 2621) مسیح ؑ کا قول تھا کہ " جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا " (متی 1111) وہ اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹا کمر سے باندھے رہتے تھے اور ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا (متی 43) اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ " توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آگئی ہے " (متی 23) یعنی مسیح ؑ کی دعوت نبوت کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسی بنا پر ان کو عموماً حضرت مسیح کا ارہاص کہا جاتا ہے، اور یہی بات ان کے متعلق قرآن میں کہی گئی ہے کہ مصد قاً بکلمۃ من اللہ (آل عمران 4)۔ وہ لوگوں کو روزے اور نماز کی تلقین کرتے تھے (149۔ لوقا 33۔ 5 لوقا 111) وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ " جس کے پاس دو کرتے ہوں وہ اس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے۔ " محصول لینے والوں نے پوچھا کہ استاد، ہم کیا کریں تو انہوں نے فرمایا " جو تمہارے لیئے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا " سپاہیوں نے پوچھا ہمارے لیئے کیا ہدایت ہے ؟ فرمایا نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ناحق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو " لوقا 103۔ 14)۔ بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء " فریسی اور صدوتی ان کے پاس بپتسمہ لینے آئے تو ڈانٹ کر فرمایا " اے سانپ کے بچو ! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو ؟۔۔۔۔ اپنے دلوں میں کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہیم ہمارا باپ ہے۔۔۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے، پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ " (73۔ 10)۔ ان کے عہد کا یہودی فرمانروا، ہیرو اینٹی پاس، جس کی ریاست میں وہ دعوت حق کی خدمت انجام دیتے تھے، سرتا پا رومی تہذیب میں غرق تھا اور اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ اس نے خود اپنے بھائی فلپ کی بیوی ہیرو دیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ حضرت یحییٰ نے اس پر ہیرد کو ملامت کی اور اس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس جرم میں ہیرد نے ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ تاہم وہ ان کو ایک مقدس اور راستباز آدمی جان کر ان کا احترام بھی کرتا تھا اور پبلک میں انکے غیر معمولی اثر سے ڈرتا بھی تھا۔ لیکن ہیرد دیاس یہ سمجھتی تھی کہ یحییٰ ؑ جو اخلاقی روح قوم میں پھونک رہے ہیں وہ لوگوں کی نگاہ میں اس جیسی عورتوں کو ذلیل کیئے دے رہی ہے۔ اس لیئے وہ ان کی جان کے درپے ہوگئی۔ آخر کار ہیرد کی سالگرہ کے جشن میں اس نے وہ موقع پالیا جس کی وہ تاک میں تھی۔ جشن کے دربار میں اس کی بیٹی نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر ہیرد نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پو چھا کیا مانگوں ؟ ماں نے کہا یحییٰ کا سر مانگ لے۔ چناچہ اس نے ہیرد کے سامنے ہاتھ باندھ کر عرض کیا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں رکھوا کر ابھی منگوا دیجئے۔ ہیرد یہ سن کر بہت غمگین ہوا، مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا کیسے رد کرسکتا تھا۔ اس نے فوراً قید خانہ سے یحییٰ ؑ کا سر کٹوا کر منگوایا اور ایک تھال میں رکھوا کر رقاصہ کی نذر کردیا (مننی 314 12 مرقس 176۔ 29 لوقا 193۔ 20)
Top