Tafheem-ul-Quran - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھجُور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگی”کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا۔“ 17
سورة مَرْیَم 17 ان الفاظ سے اس پریشان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردزہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے، بلکہ یہ فکر ان کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس خطرناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں۔ بعد کا یہ فقرہ فرشتے نے ان سے کہا " غم نہ کر " اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو چاہے تکلیف سے کتنی ہی تڑپے، اسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا۔
Top