Tafheem-ul-Quran - Maryam : 29
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ١ؕ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا
فَاَشَارَتْ : تو مریم نے اشارہ کیا اِلَيْهِ : اس کی طرف قَالُوْا : وہ بولے كَيْفَ نُكَلِّمُ : کیسے ہم بات کریں مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں صَبِيًّا : بچہ
مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔لوگوں نے کہا”ہم اِس سے کیا بات کریں گے جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟“ 20
سورة مَرْیَم 20 قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ " ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے " یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق وسباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کرے گا یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کرنے کے لیئے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورة آل عمران کی آیت 46، اور سورة مائدہ کی آیت، 110 دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نو زائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارہ میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خود حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے گہوارہ میں بھی بات کرتا تھا اور جوانی میں بھی۔
Top