Tafheem-ul-Quran - Maryam : 33
وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا
وَالسَّلٰمُ : اور سلامتی عَلَيَّ : مجھ پر يَوْمَ : جس دن وُلِدْتُّ : میں پیدا ہوا وَيَوْمَ : اور جس دن اَمُوْتُ : میں مروں گا وَيَوْمَ : اور جس دن اُبْعَثُ : اٹھایا جاؤں گا حَيًّا : زندہ ہوکر
سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کےاُٹھایا جاوٴں۔“ 21
سورة مَرْیَم 21 یہ ہے وہ نشانی " جو حضرت عیسیٰ ؑ کی ذات میں بنی اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کی مسلسل بد کرداریوں پر عبرتناک سزا دینے سے پہلے ان پر حجت تمام کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیئے اس نے یہ تدبیر فرمائی کہ بنی ہارون کی ایک ایسی زاہدہ و عابدہ لڑکی کو جو بیت المقدس میں معتکف اور حضرت زکریا کے زیر تربیت تھی، دوشیزگی کی حالت میں حاملہ کردیا جب وہ بچہ لیئے ہوئے آئی تو ساری قوم میں ہیجان برپا ہوجائے اور لوگوں کی توجہات یکلخت اس پر مرکوز ہوجائیں۔ پھر اس تدبیر کے نتیجے میں جب ایک ہجوم مریم پر ٹوٹ پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس نو زائیدہ بچے سے کلام کرایا تاکہ جب یہی بچہ بڑا ہو کر نبوت کے منصب پر سرفراز ہو تو قوم میں ہزاروں آدمی اس امر کی شہادت دینے والے موجود رہیں کہ اس کی شخصیت میں وہ اللہ تعالیٰ کا ایک حیرت انگیز معجزہ دیکھ چکے ہیں۔ اس پر بھی جب یہ قوم اس کی نبوت کا انکار کرے اور اس کی پیروی قبول کرنے کے بجائے اسے مجرم بنا کر صلیب پر چڑھانے کی کوشش کرے تو پھر اس کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے جو دنیا میں کسی قوم کو نہیں دی گئی۔ (مزید تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد، آل عمران، حاشیہ 44، 53۔ النساء حاشیہ 213، 312 جلد سوم، البنیاء حاشیہ 88۔ 89۔ 90۔ المومنون۔ حاشیہ 43۔
Top