Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے لوگو جو ایمان لائے ہو107 ؛ رَاعِنَا نہ کہا کرو ، بلکہ اُنظُرنَا کہو اور توجّہ سے بات کو سنو108، یہ کافر تو عذابِ الیم کے مستحق ہیں
سورة الْبَقَرَة 107 اس رکُوع اور اس کے بعد والے رکوع میں نبی ﷺ کی پیروی اختیار کرنے والوں کو ان شرارتوں سے خبردار کیا گیا ہے جو اسلام اور اسلامی جماعت کے خلاف یہودیوں کی طرف سے کی جارہی تھیں، ان شبہات کے جوابات دیے گئے ہیں جو یہ لوگ مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور ان خاص خاص نکات پر کلام کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی گفتگو میں زیر بحث آیا کرتے تھے۔ اس موقع پر یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جب نبی ﷺ مدینے پہنچے اور ان اطراف میں اسلام کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی، تو یہودی جگہ جگہ مسلمانوں کو مذہبی بحثوں میں الجھانے کی کوشش کرتے تھے، اپنی موشگافیوں اور تشکیکات اور سوال میں سے سوال نکالنے کی بیماری ان سیدھے اور سچے لوگوں کو بھی لگانا چاہتے تھے اور خود نبی ﷺ کی مجلس میں آ کر پرفریب مکّارانہ باتیں کر کے اپنی گھٹیا درجے کی ذہنیّت کا ثبوت دیا کرتے تھے۔ سورة الْبَقَرَة 108 یہودی جب آنحضرت ﷺ کی مجلس میں آتے، تو اپنے سلام اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ذُو معنی الفاظ بولتے، زور سے کچھ کہتے اور زیر لب کچھ اور کہہ دیتے، اور ظاہری ادب آداب برقرار رکھتے ہوئے درپردہ آپ کی توہین کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتے تھے۔ قرآن میں آگے چل کر اس کی متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں جس خاص لفظ کے استعمال سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے، یہ ایک ذومعنی لفظ تھا۔ جب آنحضرت ﷺ کی گفتگو کے دوران میں یہودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے، ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے، تو وہ راعِنَا کہتے تھے۔ اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سن لیجیے۔ مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے۔ مثلاً عبرانی میں اس سے ملتا جلتا ایک لفظ تھا، جس کے معنی تھے ”سُن، تو بہرا ہوجائے“۔ اور خود عربی میں اس کے ایک معنی صاحب رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔ اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سنو، تو ہم تمہاری سنیں۔ اور ذرا زبان کو لچکا دے کر راعِیْنَا بھی بنا لیا جاتا تھا، جس کے معنی ”اے ہمارے چرواہے“ کے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُ نْظُرْ نَا کہا کرو۔ یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔ پھر فرمایا کہ ”توجّہ سے بات کو سنو“ ، یعنی یہودیوں کو تو بار بار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی ﷺ کی بات پر توجّہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں الجھے رہتے ہیں، مگر تمہیں غور سے نبی ﷺ کی باتیں سننی چاہییں تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔
Top