Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 138
صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١٘ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ
صِبْغَةَ : رنگ اللہِ : اللہ وَمَنْ : اور کس کا اَحْسَنُ : اچھا ہے مِنَ اللہِ : اللہ سے صِبْغَةً : رنگ وَنَحْنُ لَهُ : اور ہم اس کی عَابِدُوْنَ : عبادت کرنے والے
کہو:”اللہ کا رنگ اختیار کرو۔137 اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں۔“
سورة الْبَقَرَة 137 اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ ”ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کرلیا“ ، دوسرے یہ کہ ”اللہ کا رنگ اختیار کرو“۔ مسیحیّت کے ظہور سے پہلے یہودیوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جو شخص ان کے مذہب میں داخل ہوتا، اسے غسل دیتے تھے اور اس غسل کے معنی ان کے ہاں یہ تھے کہ گویا اس کے گناہ دھل گئے اور اس نے زندگی کا ایک نیا رنگ اختیار کرلیا۔ یہی چیز بعد میں مسیحیوں نے اختیار کرلی۔ اس کا اصطلاحی نام ان کے ہاں اسطباغ (بپتسمہ) ہے اور یہ اصطباغ نہ صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو ان کے مذہب میں داخل ہوتے ہیں، بلکہ بچّوں کو بھی دیا جاتا ہے۔ اسی کے متعلق قرآن کہتا ہے، اس رسمی اصطباغ میں کیا رکھا ہے ؟ اللہ کا رنگ اختیار کرو، جو کسی پانی سے نہیں چڑھتا، بلکہ اس کی بندگی کا طریقہ اختیار کرنے سے چڑھتا ہے۔
Top