Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 146
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : اور جنہیں اٰتَيْنٰھُمُ : ہم نے دی الْكِتٰبَ : کتاب يَعْرِفُوْنَهٗ : وہ اسے پہچانتے ہیں كَمَا : جیسے يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں اَبْنَآءَھُمْ : اپنے بیٹے وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان سے لَيَكْتُمُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں الْحَقَّ : حق وَھُمْ : حالانکہ وہ يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
جِن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اس مقام کو(جسے قبلہ بنایا گیا ہے) ایسا پہچانتے ہیں، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں،148 مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے
سورة الْبَقَرَة 148 یہ عرب کا محاورہ ہے۔ جس چیز کو آدمی یقینی طور پر جانتا ہو اور اس کے متعلق کسی قسم کا شک و اشتباہ نہ رکھتا ہو، اسے یوں کہتے ہیں کہ وہ اس چیز کو ایسا پہچانتا ہے، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے۔ یعنی، جس طرح اسے اپنے بچّوں کو پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا، اسی طرح وہ بلا کسی شک کے یقینی طور پر اس چیز کو بھی جانتا ہے۔ یہُودیوں اور عیسائیوں کے علما حقیقت میں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ کعبے کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا اور اس کے برعکس بیت المقدس اس کے 13 سو برس بعد حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہوا اور انہی کے زمانے میں قبلہ قرار پایا۔ اس تاریخی واقعے میں ان کے لیے ذرہ برابر کسی اشتباہ کی گنجائش نہ تھی۔
Top