Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
بنی اسرئیل سے پوچھو: کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے انھیں دکھائی ہیں(اور پھر یہ بھی ان ہی سے پوچھ لو کہ )اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اسے اللہ کیسی سخت سزا دیتا ہے۔229
سورة الْبَقَرَة 229 اس سوال کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب دو وجوہ سے کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ آثار قدیمہ کے بےزبان کھنڈروں کی بہ نسبت ایک جیتی جاگتی قوم زیادہ بہتر سامان عبرت و بصیرت ہے۔ دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل وہ قوم ہے، جس کو کتاب اور نبوت کی مشعل دے کر دنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا گیا تھا، اور پھر اس نے دنیا پرستی، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرلیا۔ لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر مامور ہوا ہے، اس کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مل سکتا ہے، تو وہ یہی قوم ہے۔
Top