Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی 247ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔248
سورة الْبَقَرَة 247 حضرات عثمان، ابن مسعود، زید بن ثابت وغیرہم کے نزدیک رجوع کا موقع چار مہینے کے اندر ہی ہے۔ اس مدت کا گزر جانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر نے طلاق کا عزم کرلیا ہے، اس لیے مدت گزرتے ہی طلاق خود بخود واقع ہوجائے گی اور وہ ایک طلاق بائن ہوگی، یعنی دوران عدت میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا۔ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں، تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ حضرات عمر، علی، ابن عباس اور ابن عمر سے بھی ایک قول اسی معنی میں منقول ہے اور فقہائے حنفیہ نے اسی رائے کو قبول کیا ہے۔ سعید بن مُسَیِّب، مکحُول، زہری وغیرہ حضرات اس رائے سے یہاں تک تو متفق ہیں کہ چار مہینے کی مدت گزرنے کے بعد خود بخود طلاق واقع ہوجائے گی، مگر ان کے نزدیک وہ ایک طلاق رجعی ہوگی، یعنی دوران عدت میں شوہر کو رجوع کرلینے کا حق ہوگا اور رجوع نہ کرے تو عدت گزر جانے کے بعد دونوں اگر چاہیں، تو نکاح کرسکیں گے۔ بخلاف اس کے حضرت عائشہ ؓ ، ابو الدَّرْدَاء اور اکثر فقہائے مدینہ کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہوگا اور حاکم عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت سے رجوع کرے یا اسے طلاق دے۔ حضر عمر ؓ ، حضرت علی ؓ اور ابن عمر ؓ کا ایک قول اس کی تائید میں بھی ہے اور امام مالک و شافعی نے اسی کو قبول کیا ہے۔ سورة الْبَقَرَة 248 یعنی اگر تم نے بیوی کو ناروا بات پر چھوڑا ہے، تو اللہ سے بےخوف نہ رہو، وہ تمہاری زیادتی سے ناواقف نہیں ہے۔
Top